سے ۸؍تولہ ۷؍گرام ۴۸۰؍ملی گرام ہوتا ہے) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (جس کا وزن گراموں کے اعتبار سے ۶۱؍تولہ ۲؍گرام ۳۶۰؍ملی گرام ہوتا ہے) یا اس کے برابر قیمت ہے، جو اس کی اصلی ضروریات سے زائد ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے۔
سونا اور چاندی دونوں کے زیورات ملکیت میں ہوں ؛ لیکن کسی ایک کا نصاب بھی پورا نہ ہو تو دونوں کو ملاکر قیمت لگائی جائے گی، اگر دونوں کی قیمت مل کر سونے یا چاندی کے کسی نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ (مثلاً آج کل سونے اور چاندی کی قیمتوں میں بڑا فرق ہوگیا ہے، اب اگر کسی کے پاس ڈیڑھ تولہ سونا ہے اور چند تولہ چاندی ہے تو دونوں کی جب قیمت لگائی جائے گی تو چاندی کے اعتبار سے نصاب تک پہنچ جائے گی؛ لہٰذا زکوٰۃ واجب ہوگی)
زکوٰۃ وصدقات کی رقم کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جو صاحب نصاب نہ ہوں ، اور ضرورت مند بھی ہوں ، زکوٰۃ ایک بارگی خرچ کرنی ضروری نہیں ہے، حسب ضرورت مستحقین پر خرچ کی جاسکتی ہے، اپنے قرابت دار مثلاً بھائی بہن، بھتیجے، بھتیجی، بھانجے بھانجیاں ، چچا پھوپھی، خالہ ماموں ، ساس سسر، داماد وغیرہ، نیز غریب پڑوسی، نادار طلبہ مدارس وغیرہ کو زکوٰۃ دینا افضل ہے؛ البتہ سات لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے: (۱) مال دار (۲) سید (۳) ماں باپ، دادا دادی وغیرہ اوپرتک، (جن کو اصول کہا جاتا ہے) (۴) بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہ نیچے تک (جن کو فروع کہا جاتا ہے) (۵) شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو (۶) کافر (۷) مال دار کی نابالغ اولاد۔
اسی طرح جن چیزوں میں کسی کو مستقل مال کا مالک نہ بنایا جائے ان میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے، جیسے مساجد کی تعمیر، میت کا کفن یا قرض وغیرہ۔
صدقۂ فطر
رمضان کے ختم پر عید کی نماز سے قبل اللہ نے ایک متعین مقدار غریبوں پر خرچ کرنے