ٹوٹ پڑا، اگلے حصے میں کچھ مسلمان اپنی کثرتِ تعداد پر ناز کررہے تھے، اللہ کی طرف سے یہ تنبیہ ہوئی، تھوڑی سی افراتفری ہوئی، آپ نے زور سے آواز لگائی، چناں چہ سب کے پیر جم گئے اور جنگ شروع ہوگئی، تھوڑی سی دیر میں دشمن پسپا ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے، اور بہت سارا مال مسلمانوں کے حصے میں آیا۔
غزوۂ تبوک
رومیوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کر رکھی تھی، اس کی افواہ بہت زور سے پھیل رہی تھی، مدینہ سے سات سو میل کی دوری پر واقع مقام تبوک میں رومیوں کے منظم ہوکر جمع ہونے کی خبر تھی، سخت گرمی کا موسم تھا اورمدینہ منورہ میں قحط کی وجہ سے افلاس کا عالم تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر رجب ۹؍ہجری میں تیس ہزار صحابہ کا لشکر روانہ ہوا، رومیوں کو مسلمانوں کے جوش اور جذبے کا اندازہ ہوا تو ہمت ہار بیٹھے اور پسپائی اختیار کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچے تو وہاں کوئی نہ تھا، آپ نے کئی روز قیام فرماکر مدینہ واپسی کی، اس واقعے نے تمام اہل کفر کی ہمت توڑدی۔
حجۃ الوداع
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں صرف ایک حج فرمایا، اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے، ایک لاکھ ۲۴؍ہزار افراد اس حج میں آپ کے ہمراہ تھے، ۲۵؍ذی قعدہ ۱۰ھ کو آپ مدینہ سے روانہ ہوکر ۴؍ذی الحجہ کو مکہ پہنچے، ۸؍ذی الحجہ کو منیٰ تشریف لے گئے، ۹؍ذی الحجہ کو عرفات آئے، وہاں زوال کے بعد آپ نے تاریخی خطبہ دیا، جس میں آپ نے پوری امت کو انتہائی بیش قیمت پیغامات دئے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی اور جاہلیت کے تمام باطل تعصبات کو مٹانے کی دعوت دی، اسی موقع پر {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً} آیت اتری، پھر آپ مزدلفہ پھر منیٰ پھر مکہ تشریف لائے، منیٰ میں آپ نے