۶۳؍اونٹ اپنے ہاتھ سے قربان کئے، پھر ۳۷؍اونٹ حضرت علی سے قربان کرائے۔
وفات
۲۸؍صفر ۱۱ھ کو آپ کو بخار آیا، تیرہ دن تک لگاتار یہ بخار رہا، دیگر بیویوں کی اجازت سے آپ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں مقیم ہوگئے، آخری ۸؍روز حجرۂ عائشہ میں قیام رہا، ضعف بڑھتا گیا، سب سے آخری نماز جو آپ نے مسجد نبوی میں پڑھائی وہ جمعہ کی مغرب تھی، جمعہ کی عشاء سے دو شنبہ یومِ وفات کی فجر تک جملہ ۱۷؍نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائیں ، وفات سے ۵؍یوم قبل جمعرات کو بعد ظہر آپ نے آخری خطبہ دیا، جس میں یہ الفاظ بھی تھے کہ: ’’اللہ نے اپنے بندے کو اختیار دیا ہے کہ خواہ دنیا کی نعمتوں کو قبول کرلے یا اللہ کے حضور آخرت میں جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے؛ لیکن اس بندے نے آخرت کو قبول کرلیا‘‘۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر سمجھ گئے کہ آپ کا وقت قریب آچکا ہے، وہ رونے لگے۔
وفات کے دن فجر کے وقت کمرے کا پردہ اٹھاکر نماز پڑھ رہے صحابہ کو دیکھا، صحابہ فرطِ مسرت سے بے قابو ہوگئے، جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، آپ پر بار بار غشی طاری ہونے لگی، اسی حالت میں آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوئے: {مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ} (ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے) ’’اَللّٰہُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی‘‘ (میں رفیق اعلیٰ کو پسند کرتا ہوں ) اس وقت آپ نے مسواک بھی مانگی اور کی، اچانک سینۂ مبارک میں سانس کی گھڑ گھڑاہٹ شروع ہوئی، اور ہاتھ ہلنے لگے، اس وقت آپ نے نمازوں کی پابندی اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی، پانی کے برتن میں بار بار ہاتھ ڈال کر چہرے پر ملتے، اور انگشت شہادت سے اشارہ کرکے تین بار فرمایا: ’’بل الرفیق الأعلی‘‘ (بس اب صرف رفیق اعلیٰ درکار ہے) یہ کلمات زبان پر تھے کہ دست مبارک گرپڑا، چشم پاک کھل کر چھت کی طرف لگ گئی اور روح عالم قدس تک پہنچ گئی۔ یہ واقعہ مشہور قول کے مطابق ۱۲؍ربیع