اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا اڈہ بن گیا، اللہ کے حکم سے ۷ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جہاد کے لئے گئے، اور کھلی فتح حاصل ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نمایاں کردار ادا کیا۔
فتح مکہ
قریش نے صلح حدیبیہ کے شرائط ودفعات کی خلاف ورزی کی، بالآخر معاہدہ ٹوٹ گیا، آپ نے جہاد کی تیاری شروع کی، اور رمضان ۸ھ میں آپ دس ہزار کی فوج لے کر مدینہ منورہ سے چلے، حضرت خالد کو اوپر کی طرف سے مکہ میں داخل ہونے کا حکم اِس تاکید کے ساتھ دیا کہ جو تم سے مقابلہ نہ کرے تم بھی مقابلہ نہ کرنا، دوسری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اعلان فرمایا کہ جو بیت اللہ میں داخل ہوجائے یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے یا ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ مامون رہے گا، اس طرح بغیر جنگ کے مکہ فتح ہوگیا۔ ۲۰؍رمضان المبارک جمعہ کو آپ نے طواف فرمایا، اس وقت بیت اللہ میں ۳۶۰؍بت رکھے ہوئے تھے، آپ نے اپنے عصا سے سارے بت گرادئے اور اعلان فرمادیا: {وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقاً} (حق آیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی کے لئے ہے)
آپ نے اس موقعے پر حسن اخلاق، رحم وکرم، عفو ودرگذر کی بے نظیر مثال قائم کردی، بدترین دشمنوں تک کو یک لخت معاف کردیا، ان اخلاق کریمہ نے لوگوں کے دل اسلام کے لئے نرم کردئے اور بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔
غزوۂ حنین
قبیلۂ ثقیف وہوازن مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے بارہ ہزار کا لشکر تیار کیا، مکہ سے تین منزل دور طائف کے قریب مقام حنین پر یہ لشکر پہنچا، دشمنوں کا ایک دستہ پہاڑوں میں چھپا تھا، وہ یک بارگی مسلمانوں کے اگلے حصے پر