داخل ہوتے ہیں اور مبتدا کو اپنا اسم اور خبر کو اپنی خبر بنالیتے ہیں، اور اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔
۱۔ إِنَّ جملہ کے شروع میں آتا ہے اور جملہ کے مضمون کو پکا کرتا ہے۔ جیسے: إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ (بے شک اللہ خوب جاننے والے ہیں) ۔
قاعدہ: إِنَّ کی خبر پر کبھی لام تاکید مفتوح بھی آتا ہے۔جیسے: إِنَّ زَیْدًا لَقَائِمٌ (بے شک زید البتہ کھڑا ہے) ۔
۲۔ أَنَّ درمیان کلام میں آتا ہے اور جملہ کے مضمون کو پکا کرتا ہے اور اپنے اسم وخبر کو بہ تاویل مفرد کرکے جملہ کا جزو بناتا ہے۔ جیسے: بَلَغَنِيْ1 أَنَّ زَیْدًا فَاضِلٌ۔
۳۔ کَأَنَّ جب اس کی خبر اسم جامد ہو تو تشبیہ کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے: کَأَنَّ زَیْدًا2 أَسَدٌ۔ اور جب اس کی خبر فعل، اسم مشتق، ظرف یا جار مجرور ہو تو شک وگمان کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے: کَأَنَّ زَیْدًا یَقُوْمُ / قَائِمٌ / عِنْدَکَ/ فِي الْبَیْتِ۔3
۴۔ لَیْتَ نا ممکن بات کی تمنا کرنے کے لیے ہے۔ جیسے: لَیْتَ الشَّبَابَ یَعُوْدُ (کاش جوانی لوٹتی!)۔
۵۔ لٰکِنَّ استدراک کے لیے ہے یعنی کلام سابق سے پیدا ہونے والے وہم کو دور کرنے کے لیے ہے۔ جیسے: غَابَ4 الْقَوْمُ لٰکِنَّ عمرًا حَاضِرٌ۔
۶۔ لَعَلَّ ایسے کام کی امید کرنے کے لیے ہے جو ہو سکتا ہے۔ جیسے : لَعَلَّ المُسَافِرَ قَادِمٌ (شاید مسافر آنے والا ہے)