{وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ۔}(۱)
’’اور جو توبہ نہ کریں وہی ناانصاف ہیں ۔‘‘
کوتاہی کا احساس بڑی چیز ہے، اپنی غلطی کو غلطی سمجھنا معمولی بات نہیں ، غلط راستہ پر پڑجانے کے بعد اگر اپنی غلطی کا ادراک ہوگیا تو آدمی واپس آسکتا ہے، صبح کا بھولا شام کو اگر گھر آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے، لیکن اگر راستہ بھٹک جانے کے بعد احساس ہی نہ رہے تو آدمی کہاں سے کہاں پہنچ جائے، اور پھر اس کو منزل ہی نہ مل سکے، اسی لیے فرمایا کہ جو تو بہ نہیں کرتا وہی ناانصاف ہے، نہ اس نے اپنے حق کو سمجھا اور نہ دوسروں کے حق کا احساس رہا، اسی لیے کہا جارہا ہے کہ ظالم تو یہی لوگ ہیں ۔
علماء نے توبہ کی تین بنیادی شرطیں کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کی ہیں :
۱- گناہ فوراً چھوڑ دے۔ ۲-احساس ندامت پیدا ہو۔ ۳-دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم ہو۔ ۴-جو گناہ حقوق العباد سے متعلق ہیں ، ان میں چوتھی شرط بھی ضروری ہے کہ اگر اس نے حق ادا نہیں کیا ہے تو ادا کرے، مثلاً کسی کی امانت اس کے پاس ہے، امانت رکھنے والا تقاضہ کررہا ہے تو بغیر تاخیر کے ادا کردے، میراث میں کسی اور کا بھی حق رہا ہے تو حساب لگا کر اس کا حصہ اس کو دیدے، کاروبار میں اگر شرکت ہے تو ہر شریک کو اس کا حق ملنا چاہیے، غرض ایک پیسہ بھی اگر دوسرے کا اپنے مال میں شامل ہوگیا تو وہ گویا قطرۂ نجس ہے جو پورے مال کو نجس کررہا ہے، جتنی جلد ممکن ہو اس کو صاحبِ حق تک پہنچا کر اپنے مال کو پاک کرلیا جائے۔
k
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۴