زبان کے بے جا استعمال سے آدمی خود مصیبت مول لیتا ہے، عمومی طور پر پریشانیوں کا سبب یہی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ صاف صاف فرماتے ہیں : {یٰآأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲ َ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً یُّصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ}(۱) (اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور جنچی تلی بات کہو، اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو بنادے گا اور گناہوں کو معاف کردے گا۔)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ تم دو چیزوں کی ضمانت لے لو، میں تمہارے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ؛ الفم والفرج(۲) (منھ اور شرم گاہ)، ایک دوسری حدیث میں فرمایا: ’’وھل یکبّ الناس علی وجوھھم إلا حصائد ألسنتھم‘‘(۳) (لوگوں کو جہنم میں منھ کے بل ان کی زبان کے کرتوت ہی لے جائیں گے)۔
حدیث کی یہ نہایت ہی بلیغ تعبیر ہے، حصیدۃ کی جمع حصائدہے، حصائد کٹی ہوئی کھیتی کو کہتے ہیں ، درانتی یا ہنسیا سے جب کھیتی کاٹی جاتی ہے، تو غلہ کے ساتھ جنگلی گھاس بھی اس میں آجاتی ہے، اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کیڑے مکوڑے بھی درمیان میں پھنس کر کٹ جاتے ہیں ، کاٹنے والا اپنا عمل جاری رکھتا ہے، یہی زبان کا حال ہوتا ہے، جو لوگ بغیر دیکھے بھالے، سوچے سمجھے، اس کا استعمال کرتے ہیں ، وہ بعض فائدوں کے ساتھ اپنا کتنا نقصان کرلیتے ہیں ، اس کا اندازہ ان کو نتائج نکلنے کے بعد ہوتا ہے، اور بہت سے نتائج تو آخرت پر موقوف ہیں ، اسی لیے قرآن و حدیث میں باربار اس کی تاکید کی گئی ہے کہ زبان کا استعمال احتیاط کے ساتھ کیا جائے، ایک حدیث میں آتا ہے: ’’من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فیلقل
------------------------------
(۱) سورۂ احزاب/۷۰ـ۷۱
(۲) صحیح بخاری، باب حفظ اللسان/۶۴۷۴، ۶۸۰۷، شعب الایمان اور مسند احمد کی روایتوں میں چھ چیزوں کا تذکرہ ہے۔
(۳) ابن ماجہ، باب کف اللسان فی الفتنہ/۴۱۰۸، ترمذی، باب ماجاء فی حرمۃ الصلوٰۃ/۲۸۲۵