طورپر جھگڑے دل کے میل سے پیدا ہوتے ہیں ، کینہ کپٹ، حسد، غیبت، چغلی، حق تلفیاں جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں ، اگرتقوی مزاج میں داخل ہوگا تودلوں میں صفائی پیدا ہوگی، قلبی امراض سے شفاملے گی، دل آئینہ کی طرح شفاف ہوجائے گا، اپنی برائیاں نظر آنے لگیں گی، اب دوسروں کی آنکھوں کے شہتیر کے بجائے اپنی آنکھ کے تنکے نظر آئیں گے، دوسروں کے لیے چشم پوشی کا مزاج بنے گا، اور اس کے نتیجہ میں بہترسے بہتر ماحول پیدا ہوگا، دونوں فریقوں کوبھی صلح کے لیے تقوی اختیارکرنے کی ضرورت ہے اورثالثی کرنے والے اورصلح صفائی کرانے والے کوبھی تقویٰ کی ضرورت ہے تاکہ وہ جنبہ داری نہ برتے،فیصلہ کرتے وقت اللہ کا لحاظ اوراس کا ڈرہو۔
مجموعی اعتبار سے اس تقویٰ کے نتیجہ میں جب میل ملاپ کا ماحول بنے گا، ایک دوسرے کا خیال ہوگاتویہ چیزیں بھی رحمت الٰہی کو متوجہ کرنے والی ہیں ۔
عالمی اخوت اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بلکہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کوآیت شریفہ میں بیان کردیاگیا ہے، اوریہ نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اورایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پرعمل کا جذبہ ہوگا، جب مومن اپنے مومن بھائی کے لیے وہی پسند کرے گا جواپنے لیے پسند کرتا ہے، جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے گا، بلکہ اگر ضرورت پڑے گی تواس کے لیے سِپَر بن جائے گا، یہ ہے وہ ایمانی اخوت کا مضبوط تررشتہ جس کے نتیجہ میں ایک صحابی نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائی سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔(۱)
k
------------------------------
(۱) معجم کبیر للطبرانی ۱/۳۲۶۴، بیہقی، شعب الایمان ، باب ماجاء فی الایثار/۳۳۲۹، مستدرک حاکم، باب ذکر مناقب عکرمہ/۵۰۵۸