دونوں میں سے کوئی ایک فریق اس کی بات ماننے پر رضامند نہ ہوگاتو بہتر ہے کہ درمیان میں ایسے لوگوں سے ثالثی کرائی جائے جن کا دونوں فریقوں پر اثر ہو اور دونوں فریق اس کی بات میں وزن محسوس کرتے ہوں ۔
آیت کے شان نزول میں بعض واقعات بھی نقل کیے جاتے ہیں ، لیکن اس میں خطاب جس طرح قرنِ اول کے مسلمانوں کو کیا گیا ہے، اسی طرح قیامت تک کے مسلمان اس کے مخاطب ہیں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ، اگر صورت حال یہ پیدا ہو کہ ایک گروہ ظلم و زیادتی پر آمادہ ہوجائے اور وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہو تو ہر ممکن طاقت سے اس فریق کو ظلم و زیادتی سے روکا جائے، ارشاد ہوتا ہے:
{فَإِنْم بَغَتْ إِحَدٰھُمَا عَلیٰ الأُخْرَی فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْیَٔ إِلیٰ أَمْرِ اﷲِ}(۱)
’’پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کے لیے جھک جائے۔‘‘
’’بغی‘‘ بغاوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے اصل معنی حد سے تجاوز کرنے اور زیادتی کرنے کے ہیں ، جو فریق بھی زیادتی کررہا ہو اور بات سننے کا روادار نہ ہو تو مسلمانوں کے نمائندہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے روکنے کی کوشش کریں ، جہاں مسلمانوں کے پاس قوتِ نافذہ ہو، وہ اس قوت کا استعمال کریں تاکہ فساد کا وہ دروازہ بند ہوجائے، اور جہاں قوتِ نافذہ نہ ہو وہاں سماج کے دباؤ سے اجتماعی اور قانونی طاقت سے زیادتی کرنے والے فریق کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۰