کے حدود، ظلم و زیادتی اور اسی طرح کے دیگر پہلو سب دین کے زمرہ میں آتے ہیں اور ان سب میں ہم کو قرآن مجید سے رہبری ملتی ہے، قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ ان مذکورہ امور کے سلسلہ میں توجہ دلائی گئی ہے اور بعض سورتوں میں انفرادی اخلاق اور اجتماعی حقوق کا تذکرہ زیادہ وسعت کے ساتھ کیا گیا ہے مثلاً سورۃالحجرات میں متعدد اخلاقی و اجتماعی امور میں صحیح طریقہ اختیار کرنے اور اخلاق حسنہ اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے، عقیدہ و عبادت کے ساتھ اخلاقی و اجتماعی معاملات میں وابستگی کو دین کا جزئِ لاینفک قرار دیا گیا ہے اور مسلمان کا اسلام ان سب پر عمل کرنے پر ہی مکمل اسلام بنتا ہے، چنانچہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس کا دین ناقص دین نہ رہے بلکہ کامل دین ہو، دین کے تمام پہلوؤں پر عمل کرنے پر ہی دین کامل ہوگا اور اسی میں جامع دین کی صفت پیدا ہوگی لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اخلاقیات اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لیے مقرر کردہ اصول جو قرآن مجید میں اور حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں بتائے گئے نظرانداز کردیتے ہیں اور دنیا میں دیگر قوموں کا جو چلن ہے اسی کو اختیار کرتے رہتے ہیں ۔
اس میں ایک کوتاہی ہمارے علماء دین کی بھی ہے کہ وہ جس طرح عقائد و عبادات کی تصحیح و تلقین کی کوشش کرتے ہیں لوگوں کے اخلاق و صفات و معاملات کو بھی اسلامی صفت کا اور دینی روح کا بنانے کی طرف بھی توجہ دلائیں ، اجتماعی زندگی اور انفرادی اخلاق اور اہل تعلق کے حقوق اور انسانی خصوصیات کا بہتر طریقہ اختیار کرنے سے جو معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ بلند کردار کا انسانی معاشرہ بنتا ہے جس میں سب کو راحت حاصل ہوتی ہے اور ہمدردی اور آپس کا تعاون اور اخلاقی برتاؤ اور خیرپسندی کی صفات عمل میں آتی ہیں ، سورۂ بنی اسرائیل میں ، سورۂ لقمان میں ، سورۂ حجرات میں خاص طور پر ایک ہی جگہ متعدد اخلاقی نصیحتیں ملتی ہیں ، ان میں خود اپنے کو اچھے کردار کا