إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ، أُولٰـئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔}(۱)
’’البتہ اللہ ہی نے تمہارے لیے ایمان میں رغبت پیدا فرمادی اور کفر و نافرمانی اور معصیت سے تمہیں بیزار کیا، یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ۔‘‘
آگے ارشاد ہوتا ہے:
{فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً}
’’(جو ہوا وہ) اللہ کے فضل سے اور اس کے احسان سے۔‘‘
وہ صحابہ جن کی بڑی تعداد ایمان لانے سے پہلے دوسرے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، عمومی ماحول کے اثرات اکثر لوگوں پر تھے، لڑائی جھگڑا جن کی گھٹی میں پڑا تھا، اور دسیوں برائیاں ان میں پائی جاتی تھیں ، ایمان لاتے ہی ان کی دنیا بدل گئی، ایک صحابیؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد کہیں سے گذر رہے تھے وہاں کسی خاتون نے جس سے پہلے ان کے تعلقات رہ چکے تھے دل لگی کی دعوت دی، انھوں نے فرمایا کہ اب یہ نہیں ہوسکتا، میں ایمان لاچکا ہوں ، ایمان ایسی باتوں سے روکتا ہے(۲)، ان میں کتنے شراب کے رسیا تھے، لیکن حرمت کا اعلان آتے ہی پھر کبھی خیال بھی نہ لائے، ان کے دلوں کی کیفیت ایسی بدلی کہ ایسی تبدیلی کا نظارہ دنیا نے کبھی نہ کیا ہوگا، یہ ان کے ساتھ اللہ کا خاص فضل تھا، اللہ نے ان کا انتخاب اپنے نبی کی صحبت کے لیے فرمایا تھا، ان میں ایمان لانے سے پہلے بھی نفاق نہیں تھا، دوغلاپن نہیں تھا، وہ صاف گو تھے، حقیقت شناس تھے، جب کسی بات کو صحیح سمجھتے تو اسی کے ہو رہتے، ایمان کے بعد جب حق ان کے سامنے آیا اور ان کے دلوں میں ا س کی مٹھاس پیدا ہوئی تو ان کی رت بدل گئی، وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میں ایسے ڈھل گئے اور حق کے ایسے داعی بن گئے کہ جہاں گئے وہاں کی دنیا بدل ڈالی،
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۸
(۲) ابواداؤد، باب فی قولہ تعالیٰ : الزانی لا ینکح الا زانیۃ /۲۰۵۳، سنن نسائی/۳۲۲۸