مستفید ہورہے ہو، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے، تمام کے تمام تشریعی احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ، ان میں کسی کی رغبت اور خواہشات کو دخل نہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جو رائے قائم فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ہر طرح کے مصالح اور ضروریات کے جاننے والے ہیں ، علیم وخبیر ہیں ، جو حکم بھی رسول کی جانب سے دیا جائے، اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ، اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خود رائے طلب فرمائیں یا آپ کو مشورہ دیا جائے اور اس میں کسی قسم کا اصرار نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، اس کے متعدد واقعات حدیث و سیرت میں موجود ہیں ۔
غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ عنہ کا مشورہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبول فرمایا(۱) ، غزوۂ خندق کے موقع پر خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ سے مشورہ لیا(۲)، غزوۂ احد کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں قیام کی تھی لیکن وہ صحابہ جو غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار تھے(۳)، انھوں نے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی رائے دی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی طیب خاطر کے لیے ان کی رائے قبول فرمالی، اس کا کچھ نقصان بھی ہوا، غزوۂ احد میں بڑے بڑے صحابہ کرام شہید ہوئے، حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کو اگر یہ اندازہ ہوجاتا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواہش اس میں ہے تو فوراً سرتسلیم خم کردیتے اور اگر کوئی مشورہ کی بات ہوتی تو مشورہ بھی دیتے، حضرت بریرہؓ جو حضرت عائشہ کی خادمہ تھیں ، ان کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خانگی مشورہ دیا، انھوں نے دریافت کیا کہ
------------------------------
(۱) سیرت ابن ہشام ۱/۳۷۸ (۲) زادالمعاد، کتاب الجہاد والمغازی، فصل رأی سلمان بحفر الخندق/۲۴۰ (۳) زرقانی ۲/۲۵