یَدْخُلِ الإِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔}(۱)
’’اعراب(بدو)کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، آپ فرمادیجئے کہ تم ایمان والے نہیں ہوئے، ہاں تم یہ کہوو کہ ہم مسلمان ہوگئے، ابھی ایمان تمہارے دلوں میں (پوری طرح) داخل نہیں ہوا۔‘‘
ان لوگوں کے دلوں میں اول توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت اس انداز سے نہ تھی جوان حضرات صحابہ کے اندراترچکی تھی جوآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ آداب محبت وعظمت سے بھی ناواقف تھے، اپنے کام کاج میں مشغولیت کی بنا پر ان کو آپ کی صحبت وتربیت میں رہنے کے مواقع حاصل نہ ہوسکے تھے، ان کے مزاج میں بھی عام طورپرسختی ہوتی تھی، اس لیے کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا رویہ نامناسب ہوجاتا تھا اور اس کا احساس بھی ان کو نہیں ہوپاتاتھا، اس کے متعدد واقعات حدیث وسیرت میں موجود ہیں ۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کوچونکہ عالم انسانیت کا مطاع بنایاگیا تھا اور اطاعت کا صحیح جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب عظمت دل میں اترچکی ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوبطورخاص اس کا مکلف کیا کہ وہ اپنے کسی قول وفعل سے ایسا مظاہرہ نہ کریں جوآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت کے خلاف ہو، اورجس طرح اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کومربوط کیا اورفرمایا: {أَطِیْعُوْا اﷲ َ وَ أَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ}(۲) ’’اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرو۔‘‘
اسی طرح اپنی عظمت کے ساتھ رسول کی عظمت کوبھی مربوط فرمایا، سورۃالحجرات کی ابتدائی آیات کا حاصل یہی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت مطلق دلوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خالق کل اورمالک کل ہے، اس کے بعدپھر رسول کی عظمت ضروری ہے کہ وہ بندوں کوخالق سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے، انسانوں کے
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۴ (۲) سورۂ نساء/۵۹