اس میں دنیا کے قیام و بقا او رصلاح کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں اور اس پھر اس کو باقی رکھنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اور ایسے صاف ستھرے سماج کی تشکیل کی گئی ہے جو اشرف المخلوقات کے لیے ضروری ہے اور اس پر اس کی کامیابی کا انحصار ہے۔
سورۂ شریفہ کا آغاز اس بنیادی عقیدہ پر کیا گیا ہے جس پر ہر خیر کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، بندہ کا اپنے رب سے کیا تعلق ہونا چاہیے اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کیسی ہونی چاہیے، جب تک اس میں استحکام نہ ہو، اگلے سب احکامات تقریباً بے سود ہیں ۔
اللہ کا سچا مومن بندہ کسی بھی کام میں جب تک حکم الٰہی نہ معلوم ہو آگے نہیں بڑھتا، اللہ کے سامنے اور اس کے رسول کے سامنے خود اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق کے بعد ایک دوسرے کے حقوق اور معاملات اور معاشرت کے آداب بیان کیے گئے ہیں ، کسی کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیا جائے، فیصلہ بغیر تحقیق کے نہ ہو، جب تک پورا اطمینان نہ ہو کوئی غلط رائے قائم نہ کی جائے۔
سرشت انسانی دیکھ کر فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ تو زمین میں بگاڑ کرنے والے اور خون بہانے والے لوگ ہیں ، آپس کی لڑائیاں اور جھگڑے انسانی مزاج میں داخل ہے، اسی لیے صلح صفائی کرادینے کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، اور باربار یہ کہا گیا کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے ایسا تعلق رکھتے ہیں جیسے ایک ہی جسم ہو، ان کو بھائیوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے، پھر ان امراض کا بیان کیا گیا ہے جن کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں اور وہ سماج کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہیں جیسے ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، برے ناموں سے پکارنا، بدگمانی کرنا، ٹوہ میں رہنا، غیبت کرنا، دوسروں کے