رکھنے والا ہمت بھی کرتا ہے تو دس لوگ اس کی ہمت کو توڑنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
اسلام بھلائیوں کو بڑھاوا دیتا ہے، خیر کو پھیلاتا ہے اور خیر پھیلانے والوں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور برائیوں پر روک لگاتا ہے، اس نے دنیا میں زندگی گزارنے کا ایک ایسا اجتماعی نظام پیش کیا ہے جس میں ہر طبقہ کے لیے بھلائی ہے، اقتصادی نظام سے لے کر معاشرتی اور اخلاقی نظام تک اس میں ایک طرف کچھ آزادی دی گئی ہے، دوسری طرف ایسے حدود متعین کیے گئے ہیں کہ انسان انسانیت کا بھرم قائم رکھے، اپنے اخلا ق و کردار میں وہ ایسا نمونہ پیش کرے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس کی سوچ کچھ اور ہے، اور اس کے لیے یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسری زندگی کو سامنے رکھ کر جیتا ہے، زندگی کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے، خواہشات اس کو نہیں چلاتیں بلکہ وہ خواہشات کو چلانا جانتا ہے اور ان کو کنٹرول میں رکھتا ہے، اس کی حیثیت حاکم کی ہے محکوم کی نہیں ، وہ اپنے نفس کا غلام نہیں ہے بلکہ نفس کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔
اجتماعی زندگی کے اصول جب بھی بنائے جائیں گے اس میں ہر ایک کا خیال رکھنا ہوگا، ہر طبقہ کو اس کا حق دینا ہوگا، غریبوں کے حقوق، مالداروں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، غیروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، کچھ وقت ساتھ گزارنے والوں کے حقوق، سب کے اپنے اپنے خانے ہیں اور ہر ایک کو اس کی جگہ رکھنا اور توازن کو بگڑنے نہ دینا اسلام کی تعلیم ہے۔
ہر ایک کی اپنی جگہ ہے، اس کو اس کی جگہ اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا سماج کے لیے ضروری ہے، لیکن انسانی عقل نے جب بھی اس کا نظام خود طے کیا ہے وہ افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے، ہر عقل کا ایک سانچہ ہوتا ہے جس میں وہ پروان چڑھتی