کے مطابق عمل کرنے کی شدید رغبت پیدا ہوتی ہے، امور خیر کی دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور ہر برے کام سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوجا تا ہے، دلوں میں شعائراللہ کی عظمت بیٹھ جاتی ہے، اور اللہ کا نام آتے ہی دل جھک جاتے ہیں : {وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اﷲِ فَإِنَّھَا مِنْ تَقْوَیٰ الْقُلُوْبَ}(۱) (اورجو شعائر الٰہی کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے)۔
سورۂ شریفہ کے آغاز ہی میں یہ حقیقت بھی بیان ہوچکی ہے کہ عظمت ِرسالت تقویٰ کا معیار ہے: {إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوَیٰ}(۲) (بلاشبہ جولوگ اللہ کے رسول کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرتے ہیں ، ان ہی کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے)۔
اپنی چاہت اور مزاج کے خلاف منشائے نبویؐ کے آگے جھک جانے کو بھی تقویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بظاہر دَب کر جو معاہدہ فرمایا، اس سے صحابہؓ پر طبعی اثر پڑا، جمعیت بھی تھی، بہادری کے جوہر دکھانے کا وقت معلوم ہورہا تھا، لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صلح فرمالی، اور صحابہؓ نے سر تسلیم خم کردئیے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: {وَأَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوَیٰ} (اور ان کو تقویٰ کی بات پر لگادیا)۔
آگے ان کی فضیلت بیان فرمائی: {وَکَانُوْا أَحَقَّ بِھَا وَأَھْلَھَا}(۳) (اور وہ اس کے زیادہ حقدار اور اہل تھے)۔
نتیجہ اہل ایمان کے حق میں نکلا، صلح کی مختصر مدت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ دین میں داخل ہوئے جو کبھی نہیں ہوئے تھے، وجہ یہ تھی کہ ان کو دین سمجھنے کا موقع مل گیا۔
------------------------------
(۱) سورۂ حج/۳۲ (۲) سورۂ حجرات/۳ (۳) سورۂ فتح/۲۶