ہے، وہ حق پر ہو یا حق پر نہ ہو، ظلم کوئی کرتا تھا، پکڑا کوئی جاتا تھا، اسلامی مساوات نے آکر یہ سارے امتیازات مٹا دیئے اور صاف صاف اعلان کردیا:
{یٰآ أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا}(۱)
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو برادریوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا تاکہ تم ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرو۔‘‘
یہ سورۂ حجرات کی تیرھویں آیت ہے، جس میں انسان کی اصل بیان کی گئی ہے، اور یہ بات صاف کردی گئی ہے کہ سب کے سب انسان ایک باپ اور ایک ماں کی اولاد ہیں ، گویا کہ یہ ایک ایسی انسانی برادری ہے جس سے انسانی اخوت کا رشتہ قائم ہے، ایک بھائی کو دوسرے بھائی پر کسی قسم کا خاندانی امتیاز حاصل نہیں ہوتا، جو کچھ بھی امتیاز ہوتا ہے وہ فضل و کمال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی آیت میں خاندانوں اور قبیلوں کی تقسیم کے بارے میں بھی صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس کی مصلحت صرف یہ ہے کہ اتنی بڑی انسانی آبادی میں ایک دوسرے کو پہچاننا اور معاملہ کرنا آسان ہو، خاندانی بنیادوں پر کسی کو کوئی تفوق وامتیاز حاصل نہیں ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے جو لشکر تیار فرمایا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر بنایا، جبکہ حضرت عمرؓ جیسے حضرات اس لشکر میں موجود تھے(۲)، تاکہ اسلامی مزاج کی مکمل شرح و ترجمانی ہوجائے۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہورہے تھے، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر قریشی بچوں کے بجائے ان بچوں کو بٹھایا جو خاندانی اعتبار سے وہ حیثیت نہیں رکھتے تھے(۳)، اس کی
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۷ (۲) صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم أسامۃ/۴۴۶۹ (۳) صحیح بخاری، باب دخول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم من أعلی مکۃ/۴۲۸۹