بہت گہری ہیں ، البتہ موجودہ مغربی نظام نے آزادی کے پردہ میں بے حیائی کو اس قدر فروغ دے دیا ہے کہ باپ بیٹے کے مقدس رشتے میں گہری دراڑیں پڑ گئی ہیں ۔
ہمارا ملک ہندوستان تو چھواچھوت کا مرکز ہی ہے، یہاں انسان کو خاندانی بنیادوں پر جس طرح اونچ نیچ کا شکار بنایا گیا ہے، اس کی مثال دوسری جگہ ملنی مشکل ہے، یہ ہندوؤں کا مستقل ایک ’’مذہبی فلسفہ‘‘ ہے، جس کی انتہاء یہ ہے کہ اگر شودر کے کان میں ان کی مقدس کتاب کے اشلوک پڑجائیں تو اس کے کانوں میں سیسہ پلا دینے کا مذہبی حکم ہے، خاندانی بنیادوں پر مذہبی مقامات کی تقسیم ہے، نچلی ذات کا آدمی اعلیٰ ذات کے مذہبی مقام پر نہیں جاسکتا، نہ ان کے ساتھ مذہبی رسوم میں شریک ہوسکتا ہے، ان کا تصور یہ ہے کہ اس ذات کے آدمی کو اعلیٰ ذات والوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اعلیٰ ذات والوں سے برابری کا وہ خیال بھی نہیں لاسکتا۔
لسانی عصبیت کا عالم یہ ہے کہ ہندی جو سرکاری زبان ہے، جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں اس کا ملنا مشکل ہے، وہاں کے رہنے والوں سے اگر ہندی میں کوئی ضرورت مند سوال بھی کرے تو واقفیت کے باوجود وہ انجان بن جائیں گے، اور اب تو صوبائی عصبیت کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔
دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی کچھ اس انداز کی عصبیتیں نظر آئیں گی، رنگ ونسل، زبان، قومیت و وطنیت، خدا جانے کتنے بت ہیں جو دنیا کے انسانوں نے اپنے دلوں پر بٹھا رکھے ہیں ، کچھ یہی صورت حال آج سے چودہ سو سال پہلے جزیرۃالعرب کی بھی تھی، انسانوں کی تقسیم قبائلی بنیادوں پر تھی، اسی کو تقابل و تفاخر کا معیار سمجھا جاتا تھا، زمانۂ جاہلیت کی عربی شاعری اس سے بھری پڑی ہے، ’’أنصر أخاک ظالما أو مظلوما‘‘(۱) زمانۂ جاہلیت کا نعرہ تھا کہ اپنے بھائی کی مدد کرنی
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما/۲۴۴۳، صحیح مسلم، باب نصر الاخ ظالما/۶۷۴۷