پرصادق آتی ہے کہ اپنی آنکھوں کے شہتیر نظر نہیں آتے لیکن دوسروں کی نگاہوں کے تنکے نظرآجاتے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مرتبہ کسی کا ذکرآیا توبعض لوگوں نے جوواقفیت رکھنے والے تھے ان کے بارے میں کہا کہ وہ بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو اللہ اوراس کے رسول سے محبت ہے۔‘‘(۱) بڑے گناہوں کے پائے جانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ایک نیکی کاذکر فرمایا اور یہ سبق دے دیا کہ مجلسوں میں اس طرح اگرکسی کا ذکر آئے توذکرِخیر ہی بہتر ہے، بعض مرتبہ ایک نیکی اللہ کی بارگاہ میں ایسی قبول ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے گناہوں پرپردہ ڈال دیاجاتا ہے، بدگمانی کرنے والے کے اندرعام طورپراپنی بڑائی کا احساس بھی پیدا ہونے لگتا ہے اوریہ چیز اللہ کوسب سے زیادہ ناپسند ہے، مسئلہ صرف بدگمانی ہی کا نہیں بلکہ اگرکسی کے اندرخرابی موجود ہے اوراس کی نکیر کرنی ہے توبھی اگر ایسا کوئی طریقہ اختیارکیا جاتا ہے جس میں اپنی بڑائی کا اظہار ہوتا ہو، تواللہ کی ذات بہت غنی ہے معاملہ بالکل الٹ سکتا ہے، ایک حدیث میں دو دوستوں کا واقعہ بیان ہوا ہے، ان میں سے ایک متقی پرہیزگار تھا دوسرا برائیوں میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا، اس کا نیک دوست اس کوسمجھاتا رہتا تھا مگراس سے برائیاں چھوٹتی نہ تھیں ، ایک دن غصہ میں آکر اس کا نیک دوست کہنے لگا توجنت میں کبھی نہیں جاسکتا، تیرا ٹھکانہ توجہنم ہی ہے، اللہ تعالیٰ کواس کی یہ بات پسند نہیں آئی اوراللہ تعالیٰ نے اس سے کہا کہ توکون ہوتا ہے اس کو جنت سے روکنے والا، میں تجھے جہنم میں بھیج دوں گا اوراس کوجنت میں داخل کروں گا۔(۲)
یہ توایک واقعہ تھا مسئلہ صرف بدگمانی کا تھا، اس پراتنی سخت پکڑہوگئی، اگرصرف بدگمانی کی بنا پر کسی کوذلیل اورکمتر سمجھاگیا اوراپنے قول وفعل سے اس کا
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر/۶۷۸۰
(۲) بیہقی، شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض/۶۴۱۳