بدگمانی کرنے والے کوہورہا ہے، لیکن عام طورپر بدگمانی کرنے والا اقدام اورانتقام پرآمادہ ہوجاتا ہے، اس کے نتائج پورے معاشرہ کوبھگتنے پڑتے ہیں ، بدگمانی کی جوبھی نوعیت ہواس کے اعتبار سے بدگمانی کرنے والا آگے بڑھتا ہے، اوربات قتل وغارت گری تک پہنچ جاتی ہے، اس میں عام طورپرغلط فہمیوں کودخل ہوتا ہے، آدمی کسی کے بارے میں کوئی بات سن کریاکچھ دیکھ کر ایک رائے قائم کرلیتا ہے، اس کے بعدبات بڑھتے بڑھتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، اس مرض کے نقصانات محدود نہیں رہتے عام طورپرمتعدی ہوتے ہیں ، اسی لیے اس کی سخت نکیر کی گئی ہے اوریہ حکم دیاگیا ہے کہ لوگوں میں خیرکا پہلوتلاش کیاجائے، حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ اگرتمہارا مومن بھائی کوئی بات کہتا ہے اوراس کوخیرپرمحمول کیاجاسکتا ہے توتم براخیال مت لائواوراس کو خیر ہی پر محمول کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دسیوں حدیثیں منقول ہیں جن میں بدگمانی سے روکاگیاہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث‘‘(۱) (بدگمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے)۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کوخطاب کرکے فرمایا: توکیا خوب ہے اورتیری خوشبو بھی کیسی پاکیزہ تر ہے، توکیسا عظیم ہے اورتیری حرمت کیسی عظیم تر ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، ایک مومن کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے، اس کا خون اوراس کا مال، اوریہ کہ اس کے بارے میں اچھا ہی گمان کیا جائے۔(۲)
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، کتاب الوصایا، باب لا یخطب علی خطبۃ أخیہ/۵۱۴۳،۶۰۶۴،۶۰۶۶، صحیح مسلم، باب تحریم الظن/۶۷۰۱ (۲) ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المومن و مالہ/۴۰۶۷