دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
(۲)دوسری قسم جہاد باللسان :کامطلب یہ ہے کہ فاسقوں ، فاجروں ، ظالم حاکموں اور اہل بدعت سے جہادبالید کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں اپنی زبان سے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ اصلاح کی ممکن کوشش کرنا، فسق وفجور اور بدعت کی خرابی بیان کرنا، ظلم وزیادتی کے مفاسد اور عدل واحسان کے محاسن بیان کرنا، یہ جہاد باللسان ہے،خواہ تقریر و تحریر کے ذریعہ یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ،کیونکہ تحریر ودیگرذرائع ابلاغ تقریر ولسان کے قائم مقام ہے۔ (۳)تیسری قسم جہاد بالقلب : اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زبان سے کہنے کی بھی قدرت نہ ہو یا تو اس بناپر کہ صلاحیت و استعداد نہیں ، یا اس بنا پر کہ زبان سے کہنے میں بھی ایسے فتنہ وفساد کا اور ایسے حالات کاخطرہ ہے جس کا اس سے تحمل نہ ہو سکے گا ایسے ضعف کی حالت میں صرف دل سے جہاد کرے، یعنی دل سے اس کو بر اسمجھے، یہ بھی جہاد کی ایک قسم ہے، جہاد کی یہ کُل تیرہ قسمیں ہوئیں : (۱)نفس سے جہاد کی چار قسمیں (۲)شیطان سے جہا د کی دو قسمیں (۳) کافروں سے جہاد کی چار قسمیں (۴) فاسقوں اور اہلِ بدعت سے جہاد کی تین قسمیں ۔ یہ ساری تفصیل علامہ ابن قیمؒ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں ’’فصل الجھاد اربع مراتب ‘‘ کے تحت اور حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اور علامہ خلیل احمدسہارنپوریؒ نے بذل المجہود شرح ابودائودمیں ’’کتاب الجہاد‘‘ کے شروع میں تحریر فرمائی ہے۔(بذل المجہود ص۴۰۰ ج۳ ہندیہ) اس پوری تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم وتدریس اور علماء کے اصلاحی بیانات اور مروّجہ دعوت وتبلیغ بھی جہاد کی پہلی یا چوتھی قسم میں شامل ہیں ،علامہ ابن قیمؒاور حافظ ابن حجرؒ کی مختصر عبارت درج ذیل ہے: قال ابن القیّم اذا عرف ھذا فالجھاد أربع مراتب: جھاد النفس، جھاد الشیطان وجھاد الکفار وجھاد المنافقین… الخ(زادالمعادص۳۹ ج۲)