دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
حضرت مہدی وعیسیٰ علیھما السلام بھی آکر یہ جہاد کریں گے، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اخیر عمر تک یہ جہاد فرمایا، اس لئے جہاد کی اس قسم کی اہمیت و فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، رہ گئی وہ خصوصیت جس کی طرف مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے اشارہ فرمایاوہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اس کام میں نکل کرواقعۃً صبرکرنے اور غصہ کو پی جانے کی شان زیادہ پائی جاتی ہے، لیکن یہ جزئی فضیلت ہے،جزئی فضیلت و خصوصیت کی وجہ سے کلی فضیلت نہیں ہوسکتی، مثلاً نماز اذان سے افضل ہے،حالانکہ حدیث پاک میں اذان کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ اس کی آواز سے شیطان دور بھاگتا ہے، نماز سے نہیں بھاگتا،جیسا کہ حدیث پا ک میں آیا ہے، حالانکہ اذان نماز سے افضل نہیں بلکہ نمازہی اذان سے افضل ہے،لیکن ایساممکن ہے کہ غیرافضل میں وہ خصوصیت پائی جائے جو افضل میں نہ پائی جائے جیسے بعض اذکار مثلاً بارہ تسبیحات جو اکابر کے یہاں معمولات میں داخل ہیں اگر چہ شرعی دلائل سے ثابت اور مشروع ہیں ، لیکن حضور ﷺ سے اس کیفیت سے مأثور ومنقول نہیں ، لیکن بعض خصوصیات مثلاً دلجمعی ویکسوئی کا حاصل ہونا، دل میں ایک خاص کیفیت اور رقّت کا پیدا ہونا وغیرہ ان مروّجہ اذکار وتسبیحات میں جس نوعیت سے پائی جاتی ہیں ، وہ دوسرے اذکارماثورۃ میں نہیں پائی جاتیں ، لیکن محض اس کی وجہ سے بارہ تسبیحات کو اذکارِ مسنونہ سے افضل نہیں کہا جاسکتا،افضلیت تو اذکارِ ماثورہ ہی کو حاصل ہوگی لیکن اس کے ساتھ ہی ان اذکار کی اہمیت وضرورت کا بھی انکارنہیں کیا جاسکتا ،اسی وجہ سے مشائخ صوفیا نے اس کو اختیار کیا ہوا ہے،واللہ اعلم۔ الغرض جزئی فضیلت سے کلی فضیلت نہیں ہواکرتی، حضرت عمرفاروقؓ کو دیکھ کر شیطان بھاگتا تھا، صدیق اکبر کو دیکھ کر نہیں ، لیکن اس کے باوجود افضل صدیقِ اکبر ہی ہیں ، اسی طریقہ سے دعوت وتبلیغ کا یہ کام صبروحلم اور تواضع وتذلل میں جہاد کی دوسری قسموں سے بعض موقعوں میں اگرچہ فائق ہوسکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے اس کام کو جہاد کی دوسری قسموں سے افضل نہیں قرار دیا جاسکتا۔