دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
قربان کرنا، گردن کٹانا خون بہانا ہوتا ہے، یہ جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’والذی نفسی بیدہ لوددت أن أقتل فی سبیل اللہ ثم أحییٰ ثم اُقتل، ثم أحییٰ ثم اُقتل، ثم أحییٰ ثم اُقتل ‘‘ (بخاری،مسلم،مشکوٰۃ،عن ابی ہریرۃ،۳۲۹،کتاب الجہاد) ترجمہ:قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ اللہ کے راستہ میں قتل کیاجائوں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں ۔ جہاد کی یہ ایسی اعلیٰ قسم ہے کہ ہر جگہ اس کے کرنے کی اجازت بھی نہیں جب تک کہ اس کے شرائط نہ پائے جائیں ،فقہاء نے ان شرائط کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے ۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ جہاد بمعنی قتال اگر چہ سب سے افضل ہے، لیکن بعض لحاظ سے دعوت وتبلیغ کی یہ جد وجہد بھی جہاد کے مشابہ بلکہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے اس سے بھی اہم ہے، کیونکہ قتال میں تو غصہ اور جوش میں آکر دشمن کو قتل کردینے سے غصہ ٹھنڈا ہوجاتاہے ،(اگرچہ صبر کرنے، تکلیف سہنے، محنتِ شاقّہ برداشت کرنے اور خلاف طبع باتوں پر غصہ پینے اور صبر کرنے کے مواقع یہاں بھی بکثرت آتے ہیں ، اور دعوت وتبلیغ میں غصہ ٹھنڈا کرنے کے مواقع کم اور صبرکرنے اور غصہ کوپی جانے کے مواقع کثرت سے آتے ہیں )نیز اس میں تواضع وتذلل کی شان بھی غالب ہوتی ہے ، اس لئے اس خصوصیت کے لحاظ سے دعوت وتبلیغ کا یہ کام جہاد بالسیف بمعنی قتال سے بھی اہم ہے،لیکن ان سب کے باوجود جہاد بالسیف کے جو فضائل احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں ،جہاد کے دوسرے اقسام کے وہ فضائل نہیں ،اسی وجہ سے اس جہاد کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمنا کرتا ہوں کہ اللہ کے راستہ میں باربار قتل کیا جائوں ، جہاد کی کوئی بھی قسم اس قسم کے برابر نہیں ہوسکتی اور جہاد کی اس اعلیٰ قسم ہی کے بارہ میں آپ نے فرمایاکہ یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا،