دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
آپ کے اسوۂ حسنہ سے کہ جو اس میں سوار ہوگا ، یعنی رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی پوری شریعت (جس کے احیاء وتبلیغ کی یہ جماعت کوشش کر رہی ہے) اور آپﷺ کا اسوہ ونمونہ کشتیٔ نوح کے مرادف ہے ، جو اس کشتی میں سوار ہوگا اور رسول اللہ ﷺ کے دامن سے وابستہ رہے گا وہ تو نجات پاسکے گا ورنہ نہیں ۔ تبلیغ سے منسلک حضرات بھی اگر پوری جامعیت کے ساتھ جس کا تذکرہ ماقبل میں گزرا اگر اس جامعیت کے ساتھ اس کام کو کریں گے تووہ بھی کشتیٔ نوح میں سوار سمجھے جائیں گے ورنہ وہ سب بھی خطرہ میں ہوں گے۔ بلا شبہ امت کے بعض طبقات ایسے بھی ہیں جن میں دینی شعور اور دینی بیداری کے لئے ان کے حالات اور ماحول کے پیش نظر فی الوقت اس دعوت وتبلیغ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ، ایسے گندہ ماحول میں مبتلا حضرات کے لئے بھی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان کے لئے یہ کام گویاکشتیٔ نوح ہے ، سوار ہوں گے ، کام سے منسلک ہوں گے تو زندگی میں دین آئے گا، نجات پا جائیں گے ورنہ غرق ہوجائیں گے،یعنی یہ بات خاص ماحول کے لوگوں کے لئے آپ نے فرمائی، ورنہ ظاہر بات ہے کہ اصل نجات توکتاب وسنت کی پیروری اور اتباع سنت پر ہی موقوف ہے خواہ کسی بھی ذریعہ سے ہو، کسی خاص جماعت یا تحریک یا کسی بزرگ کے واسطہ سے ہی شریعت کی پیروی کرنا اور اس سے منسلک ہونا لازم نہیں کہ اس کے بغیر نجات ہی نہ ہو، حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے اپنے خاص ذوق ومزاج کے اعتبار سے ایک بات ارشاد فرمائی ہے جس کی یہ توجیہ وتاویل کرنا جو اوپر مذکور ہوئی مناسب ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اصل نجات تو کتاب وسنت پر عمل کرنے پر ہی موقوف ہے، اور وہی کشتیٔ نوح کا مصداق ہے، لیکن بسا اوقات کسی ذریعہ اور واسطہ سے اس کشتیٔ نوح یعنی کتاب وسنت تک رسائی ہوتی ہے، تو اس ذریعہ اور واسطے کو بھی کشتیٔ نوح مجازاً کہہ دیا جاتا ہے، چنانچہ خود رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:ألا إن مثل أہل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح