دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
کرنا چاہتے تھے، اور اپنی تبلیغ کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ: ماجاء بہ النبی ﷺ ۔(یعنی نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی پوری شریعت) کو زندہ کرنا ۔ دین کے کسی شعبے سے آپ غافل نہ تھے، تعلیمِ کتاب یعنی قرآن پاک کے الفاظ پڑھنے پڑھانے کے لئے مکاتب قائم کرنے کی طرف تبلیغی کارکنوں کو آپ نے توجہ دلائی ، معانی قرآن کے لئے مدارس کے قیام اور ان کو آباد رکھنے کی ترغیب آپ نے دی ،دارالافتاء اور دارالقضاء کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تمام تبلیغی کارکنوں کو اپنے قضایا و مسائل اسلامی عدالت کے ذریعہ حل کرنے کی ہدایت آپ نے فرمائی، علم الفرائض یعنی تقسیم میراث کے شرعی طریقہ کو زندہ کرنے کی بار بار تاکیدآپ نے فرمائی ، تزکیۂ نفوس واصلاحِ باطن کے لئے خانقاہوں میں جانے اور بزرگوں ومشائخ سے ربط رکھنے کی بھی تاکید فرمائی ، علماء سے مل کر ان کے تمام دینی تصنیفی و دعوتی کاموں میں ان کی نصرت و اعانت کر کے ان کے کاموں میں شرکت کر کے اجرو ثواب حاصل کرنے کی بھی آپ نے ہدایت فرمائی ۔ (ملفوظات حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ ص:۱۶۶ملفوظ نمبر۲۰۴) الغرض تمام مسلمانوں میں پورے دین کو پہنچانے اور دین کے تمام شعبوں کو زندہ کرنے کے حوصلے اور پختہ ارادے آپ کے ملفوظات ومکتوبات میں ملتے ہیں ، مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں ، سیاسی لوگوں اور اربابِ حکومت تک کو اسلام کی دعوت دینے کے پختہ ارادوں کا آپ کی تحریرات و ارشادات میں تذکرہ ملتا ہے ، گویا پوری شریعت اور کتاب وسنت کو زندہ کرنے اور پورے دین کو لوگوں تک پہنچانے کی یہ تحریک ہے ۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ اس تحریک سے جو کچھ چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں جو ان کے عزائم وا رادے تھے بلا شبہ ان سب پر نظر رکھتے ہوئے اور اس کی جا معیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ اس تبلیغی تحریک کی مثال کشتیٔ نوح کی ہے ، جو دراصل تعبیر اور کنایہ ہے رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے پیغام اور آپ کی لائی ہوئی پوری شریعت اور