دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
مرحمت فرمایا گیا، اور قرآن کریم میں سورۂ بینہ میں یہ آیت نازل فرمائی گئی (وَمَا أمِرُوْا إلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَیُؤتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیَِّمَۃٌ) اس رہنمائی کے بعد اس امت پر دعوت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اس عظیم منصبِ دعوت کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کتاب وسنت کا دائمی اور مکمل دستور عطا فرمایا ہے، یہ دستور ہر زمان ومکان کے لئے یکساں اہمیت رکھتا ہے، اور اس کی ہمہ گیریت ایک ایسا امتیاز ہے جس کی مثال نہ پہلے کہیں نظر آسکی، اور نہ اس میں آئندہ کسی ذرہ کے برابر تبدیلی کی گنجائش ہوسکتی ہے، مختلف اقوام وملل نے اس کی شکل تبدیل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ناکامی سے دوچار اور رسوا ہوئے، اور وہ بہت سے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور ذلت کا شکار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو عملی طور پر باقی رکھنے، اور اس کی قوت وتاثیر کوتاقیامت برقرار رکھنے کے لئے امت مسلمہ کووسائل وذرائع بھی مرحمت فرمائے، اہلِ دعوت کے قائدین کی جماعت پیدا کی، اور ان کو داعی الی اللہ کا لقب عطا فرمایا۔ ان داعیانِ اسلام میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ کو اللہ تعالیٰ نے تبلیغی جماعت کے نام سے دعوت الی اللہ کا کام کرنے کی توفیق کامل عطا فرمائی، اور ان کا اخلاص، ان کا رضائے الٰہی کی تلاش، ان کی بے نفسی، ان کی بے پناہ محنت اور قربانی اس قدر مقبول عند اللہ ہوئی کہ تبلیغی جماعت کا کام پوری دنیا میں پھیلا، اور دین کے لئے محنت کرنے، دعوت کو پھیلانے اور کتاب وسنت کی روشنی میں زندگی گزارنے والوں کی تعداد عام ہوئی، اور فہم دین کے ساتھ دین کے لئے محنت کرنے اور اس کو مکمل دین کی حیثیت سے لوگوں تک پہونچانے کا حوصلہ ہر خطۂ عالم میں متعارف ہوا۔ اسی طریقۂ دعوت کو مستحکم کرنے اور اس کی ہرجہت سے حفاظت کرنے کا طریقہ بانیٔ