دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ کے اس ملفوظ اور مکتوب سے(جس کو حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ اور مولانامحمد منظور نعمانیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے) اتنی بات پر تو پورا اطمینان ہوجاتا ہے کہ علم کے باب میں قرآن وحدیث کی تشریح اور احکام شرعیہ کی تفہیم اور دین کی ترجمانی کے سلسلہ میں حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ نے حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کے علوم ومعارف اور ان کی تعلیمات وتصنیفات پر نہ صرف پورا اطمینان واعتماد بلکہ یہاں تک اپنی خواہش اور ارادہ کا اظہارفرمادیا کہ میرے اس طریقۂ تبلیغ سے ان کی تعلیم جو قرآن وحدیث کی روشنی میں ہے عام ہوجائے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد الیاس ؒکے نزدیک حضرت تھانویؒ کے علوم ومعارف اور ان کی تصانیف کی کتنی اہمیت تھی، اور کیوں نہ ہوتی جب کہ حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ نے اپنا دعوتی وتبلیغی سفر شروع کرنا چاہا اور اس منزل میں قدم رکھا تو وہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ ہی کی زیر نگرانی اور انہی کے حکم سے تھا چنانچہ حضرت مولانامحمد ثانی حسنی مظاہریؒ اپنی کتاب ’’حیات خلیل‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں : ’’۱۳۴۱ھ میں جب راجپوتانہ اور آگرہ سے ارتداد کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو حضرت تھانویؒ کو اس کی فکر ہوئی اورا نہوں نے وفود بھیجنے شروع کئے، مظاہر علوم سے حضرت مولاناکے تلامذہ اورمتعلقین جن پر آپ کو اطمینان تھا اس مبارک کام کے لئے منتخب ہوئے، جن میں مولانااسعداللہ صاحب مدظلہ، مولانا عبدالکریم گمتھلوی اور حضرت مولانامحمد الیاس صاحب کاندھلوی قابل ذکر ہیں ، اس سلسلہ میں حضرت تھانوی اور مولانامحمد الیاس صاحبؒ کی انتھک محنتوں اور کوششوں نے بڑا کام انجام دیا(حیات خلیل صفحہ ۲۴۰) اس دعوتی تبلیغی قافلہ نے جو حضرت تھانویؒ کی زیر نگرانی سفر کررہا تھا اپنی کارگزاری اور سفر کی روداد حضرت تھانویؒ کی خدمت میں لکھ کر بھیجی ، اس کو پڑھ کر حضرت تھانویؒ نے