ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
بالکل چھور دیجئے ـ یوں سمجھئے کہ جو لوگ مجھ سے زیادہ علم اور فہم اور تقوی رکھنے والے ہیں انہوں نے جب اچھی طرح تحقیق کر لیا ہے تو پھر ہماری تحقیقات کی کیا حاجت ہے ـ بس ہمیں ایسے لوگوں کی بلا دلیل تقلید کر لینی کافی ہے ، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ ہماری تحقیق ان کی تحقیق کے برابر ہرگز نہیں ہو سکتی ـ پھر ایک فضول امر کے درپے ہونا لغو حرکت ہے ـ آپ اگر دلائل کے فکر میں پڑیں گے تو وساوس کا دونا ہجوم ہو گا اور مرض بڑھتا ہی جاوے گا ـ پھر کچھ دیر تامل فرما کر استفسار فرمایا کہ آخر یہ مرض آپ کو کب سے ہوا ـ ان صاحب نے عرض کیا کہ بچپن ہی سے یہ مرض ہے ، جبکہ میں ابتدائی کتابیں بڑھتا تھا ـ فرمایا کہ آپ نے اس کا اظہار کسی سے کیا ـ عرض کیا نہیں ، فرمایا کہ آپ نے غضب کیا اور غلطی کی جو اس مرض کو چھپایا ـ اگر آپ کسی سے اس کا اظہار کر دیتے تو وہ ہرگز آپ کو طب پڑھنے کا مشورہ نہ دیتا کہ اس میں صحبت اہل باطل کا زیادہ موقع ہے ـ اور وہ خود ایسے شخص کے لئے مضر ہے ـ طب کا پڑھنا آپ کے لئے بالکل حرام تھا اور اب بھی میں آپ کے لئے طب کے مشغلہ کو نا جایز سمجھتا ہوں ـ طب کا شغل آپ کے لئے سخت مضر ہوا ، آپ نے اپنے اوپر ظلم کیا جو طب کو پڑھا ـ آپ کو اب چاہئے کہ اس مشغلہ کو بالکل ترک کر کے کسی کی خوبیوں کے نیچے خاک ہو جائیے اور اہل اللہ کی جماعت میں ملے جلے اور ان سے لگے لپٹے رہ کر مزدوری سے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پال کر زندگی گزار دیجئے ، ورنہ ان سے علیحدہ اس مشغلہ میں مشغول تنہا سمندر میں کودنا ہے ـ خطرہ عظیم کا سامنا ہے ـ اب اس مشورہ پر عمل کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے ـ اس گفتگو کے بعد طبیب صاحب نے عرض کیا کہ کوئی وظیفہ پڑھنے کو بتلا دیجئے ـ بہ جوش فرمایا کہ ہر مرض کا علاج جدا ہے، آپ کے مرض کا علاج وظیفہ پڑھنا ہرگز نہیں ـ بھلا آپ نے بھی کبھی ایسا کیا ہے کہ اگر آپ کے کسی مریض کو خلط ملط صفرا کا غلبہ ہوا اور اس نے کہا ہو کہ مجھے سونگھنے کی دوا دے دیجئے اور آپ نے اس کے کہنے کے مطابق کوئی سونگھنے ہی کی دوا بتلا دی ہو ـ تو میں بھی اس دوا کے نام سننے کا مشتاق ہوں ـ گو بے ہوشیوں میں لخلخے سنگھائے جائے ہیں لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر مرض میں سونگھنے ہی کی دوا تجویذ کر دی جایا کرے ـ