ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
دستور ہے وہ اپنی پاخانہ میں بھری ہوئی انگلی ناک پر رکھ کر چاند دیکھ رہی تھی پاخانہ کی جو بو محسوس ہوئی تو کیا کہتی ہے کہ اوئی ابکے یہ سڑا ہوا چاند کیسا نکلا ہے ـ بو تو تھی خود اس کی انگلی میں اور تہمت لگائی چاند کو ـ حالانکہ چاند تو چاند ہی تھا اس میں بو کہاں اسی طرح کمبخت گنوار نے ایسی پاکیزہ صحبت کو بھی برا سمجھا حالانکہ برائی خود اسی کے اندر تھی جس سے اچھی صحبت میں بھی اس کو برائی ہی نظر آئی ـ مولانا فتح محمد صاحبؒ کی بے نفسی ، بزرگوں کی خدمت کے لئے بڑی عقل کی ضرورت ہے ملفوظ (132) فرمایا کہ حضرت مولانا فتح محمد صاحب بھی بہت ہی بے نفس اور بے حد متواضع تھے ایک نائب تحصیلدار جن کا مقام دورہ کا جلال آباد میں تھا مولانا سے ملنے آ ئے مولانا کہیں سفر میں تشریف لے گئے تھے ـ نائب تحصیلدار ایک جوان اور لاابالی آدمی تھے وہ ایک پرچہ پر یہ شعر لکھ کر ایک طالب علم کو دے گئے کہ مولانا کو دیدیں ؎ چو غریب مستمندے بہ درت رسیدہ باشد چہ قدر طپیدہ باشد چو ترانہ دیدہ باشد مولانا جب سفر سے لوٹے تو آتے ہی اس طالب علم نے وہ پرچہ دیدیا ـ دیکھتے ہی بدوں گھر گئے سیدھے جلال آباد پہنچے اور فرمایا کہ بیچاروں کو میرے نہ ملنے کی وجہ سے بڑی حسرت ہوئی سفر سے پیدل چلے ہوئے آ ئے تھے پیدل ہی جلال آباد پہنچے وہاں دیکھا کہ وہ صاحب اور نو عمروں کے ساتھ ہنسی دل لگی میں مشغول تھے مولانا باہر کچھ دیر کھڑے رہے تاکہ ان کے لطیف صحبت میں کیوں خواہ مخواہ مخل ہوں موقعہ دیکھ کر کسی آ تے جاتے کے ہاتھ اطلاع کرائی وہ لوگ سہم گئے مولانا کو اندر لے گئے تھوڑی دیر بیٹھ کر فرمایا کہ بھائی میں ابھی گھر بھی نہیں گیا سیدھا یہاں چلا آیا ہوں پھر اسی وقت واپس تشریف لائے ـ ایک مرتبہ یہاں مسجد میں تشریف لا رہے تھے راستہ میں پانی بھرا ہوا تھا مولانا یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کدھر سے پھاند کر چلوں قاری عبدالطیف صاحب پانی پتی نے جو ایک طرف