ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
استفسار پر فرمایا کہ اللھم احینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین میں مسکین سے مراد قلیل المال ہے نہ کہ مسکین طبع کہ یہ تو بعض امراء پر بھی صادق ہے ـ پھر ان کا مقابلہ اغنیاء کے ساتھ جیسا حدیثوں میں ہے با معنی نہ ہو گا ـ مساکین کا بڑا مرتبہ بوجہ عجز و مسکنت اور شکستہ حالی کے ہے کہ ان میں تواضع اور شکستگی بہت ہوتی ہے تکبر نہیں ہوتا ـ حدیث شریف میں آٰیا ہے کہ مساکین امراء سے پانچ سو برس پہلے جنت میں داخل ہونگے ـ لیکن اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ امراء اپنا سب مال و متاع خیرات کر کے مسکین ہو جائیں ـ بلکہ جو امراء غرباء سے محبت کریں گے وہ بھی بفحوائے حدیث المراء مع من احب جنت میں انشاء اللہ مساکین ہی کے ساتھ پہنچیں گے ـ عرض کیا گیا کہ اسراف کی حد کیا ہے ؟ فرمایا کہ جو اجازت شرعی کے خلاف خرچ ہو وہ اسراف ہے خواہ وہ بظاہر نیک ہی کام ہو ، مثلا جس پر بیوی بچوں کا نفقہ واجب ہو اس کو سارا مال خیرات کر دینا اسراف ہے اور کھانے پینے میں وسعت کرنا بشرطیکہ کسی حد شرعی سے تجاوز لازم نہ آوے اسراف میں داخل نہیں ـ استفسار پر فرمایا کہ اچھے کپڑے وغیرہ پہننا اگر تحصیل جاہ کے لئے ہے تو ناجائز اور اسراف میں داخل ہے اور اگر دفع مذلت کے لئے ہے تو مطلوب شرعی ہے اور اسراف میں داخل نہیں ـ عرض کیا گیا کہ خلاف خلوص کے محض تکلف کی راہ سے کسی کی مہمانی وغیرہ کیسا ہے ؟ فرمایا کہ تحصیل جاہ کے لئے ہو تو حرام ہے اور اگر دفع مذلت کے لئے ہو تو عنداللہ مواخذہ نہیں ـ مگر شرط یہ ہے کہ تحمل سے زیادہ نہ ہو کہ مدیون یا مقروض ہو جاوے ـ ایک صاحب نے جو ہر دوئی میں ڈپٹی کلکٹر ہیں اور حضرت سے مستفیض ہیں استفسار فرمایا کہ اگر کسی کی تنخواہ بڑی ہو لیکن مہینہ میں سب ختم ہو جاتی ہو تو وہ غنی ہوا یا مسکین ؟ فرمایا کہ وہ مسکین ہے کیونکہ غنی وہ ہے جس کے پاس کچھ ذخیرہ ہو ـ ایک بار فرمایا کہ ایک شخص کے لئے پچاس روپے گز کا کپڑا بھی پہننا جائز ہے یعنی جس کو گنجائش ہو اگر نیت ریا و تفاخر کی نہ ہو اور دوسرے کے لئے پانچ آنہ گز کا بھی نا جائز ہے ، یعنی جس کو گنجائش نہ ہو نیت ریا یا تفاخر کی ہو ـ سختی اور شفقت ـ ابوالحال اور ابن الحال : ملفوظ (65)