ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
میں جب تک ایسا نہ کیا جاوے نفع نہیں ہوتا عرض کیا گیا کاملین کے قلب میں تو حق تعالی کی یاد ایسی رچ جاتی ہے کہ گفتگو وغیرہ یا مخلوق کی طرف متوجہ ہونے میں ذہول نہیں ہوتا تو ایسی حالت میں توجہ متعارف میں بھی مشغولی بحق میں فرق نہ آتا ہو گا ـ فرمایا کہ رچنا تو ایک حال ہو گیا ہے مگر توجہ بقصد کا اب بھی مکلف ہے مزید توجہ سے توجہ اور زیادہ ہو جاتی ہے سو توجہ مصطلح میں اس کا تو وہ تارک ہو گیا رچنا کے صرف یہ معنی ہیں کہ ادنی توجہ سے قلب منصرف الی احق ہو جاتا ہے مثلا استاد کو پڑھاتے پڑھاتے ایسا ملکہ ہو جاتا ہے کہ ذرا متوجہ ہونے سے سارے مضامین پیش نظر ہو جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں کہ دوسری کتاب پڑھاتے وقت بھی سب مضامین ذہن میں ہوں التفات کے لئے تو قصد ہی کی ضرورت ہے سو اس مرتبہ میں تو قلت التفات ہو ہی جائے گا چاہے ثواب زیادہ ہو کیونکہ نفع متعدی ہے لیکن حضور قلب میں تو فرق آ ہی جائے گا گو محبوب کو نا گوار نہ ہو لیکن افتراق کی ناگواری اس محب کو تو ہو ہی گی دوسرے جو حضور حال ہو گیا ہے اس سے آ گے بھی تو حضور کے مدارج ہیں ان کو کیوں ضائع کرے اور یہ حاصل ترقی کا ہے کہ جو درجہ اس سے آ گے چلو مثلا نماز میں جس کا حضور ایک خاص درجہ تک ہو رہا ہے اسے چاہیے اور آ گے بڑھے ہاں اس میں مشقت ضرور ہو گی ـ عرض کیا گیا کہ کاملین کو تو عبادت میں تکلیف نہیں ہوتی فرمایا کہ تکلیف نہیں ہوتی کے یہ معنی ہیں کہ درجہ مزحمت عمل میں نہیں ہوتا لیکن مشقت کچھ نہ کچھ ہوتی ہے اور مشقت میں لذت بھی تو ہوتی ہے کسی مزدور کو اگر ٹھیکہ دیدیا جاوے کہ بجائے 4 کے 8 ملیں گے اتنی دیر میں کام ختم کر دو تو وہ زیادہ محنت کے ساتھ کام کرتا ہے اس محنت سے اس کو مشقت ہوتی ہے مگر لطف آتا ہے شوق سے کام کرتا ہے ـ کاملین پر غلبہ حال نہ ہونے کا مطلب ملفوظ (139) استفسار پر فرمایا کہ جو کہا جاتا ہے کہ کاملین پر حال غالب نہیں ہوتا اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسا غلبہ نہیں ہوتا کہ استقامت یعنی اعتدال شرعی سے نکل جاوے باقی غلبہ تو ہوتا ہے نفی اس غلبہ کی ہے کہ جس میں حضرت منصور سے انا الحق نکل گیا تھا ایسا غلبہ نہیں ہوتا دیکھئے حضورِؐ پر وحی کے وقت غشی اور پسینہ کی کثرت ہوتی تھی البتہ ایسا غلبہ نہیں تھا جو کسی