ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
بار ایڑ مارنے سے بہت جلد رام ہو جاتا ہے ، اور جو گھوڑا شائستہ نہ ہو وہ ایک تو زیادہ شرارتیں کیا کرتا ہے اور جب شرارت کرتا ہے تو پھر اس کا سنبھالنا مشکل پڑ جاتا ہے ـ یہی نفس کا حال ہے ، بعد شائستگی کے بھی وہ کبھی کبھی شرارت کرنے لگتا ہے لیکن ادنی توجہ میں دب جاتا ہے ـ یہ نہیں ہے کہ ایڑ ہی کی ضرورت نہ رہے ـ نفس کی منازعت تو عمر بھر رہتی ہے ـ لہذا یہ ہوس کرنا بھی فضول ہے کہ نفس میں معاصی کا میلان بھی باقی نہ رہے ـ بعضے لوگ کشف و کرامات اور خرق عادات کے خواہاں ہوتے ہیں ـ یہ بھی کوئی چیز نہیں ـ اصل مقصود رضائے حق ہے اور اس کا ذریعہ دوام طاعت اور کثرت ذکر ہے ـ رضاء کا ظہور آخرت میں ہو گا ـ البتہ یہاں دنیا میں اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ کثرت ذکر سے حق تعالی کے ساتھ قلب کو ایک خاص تعلق اور لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے جس سےحظ اور تسلی رہتی ہے ـ جیسے معشوق کے ساتھ دل کو لگاؤ ہو جاتا ہے اور اس کی یاد دل سے نہیں اترتی ، اس سے حظ بھی ہوتا ہے اور تسلی بھی رہتیی ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ محبوب کے احکام کی تعمیل کا دل سے شوق ہو جاتا ہے اور تسلی بھی رہتی ہے اور گو ظاہری کلفت ہو لیکن ان احکام کی تعمیل اس پر آسان ہو جاتی ہے ـ یہی حالت یہاں ہوتی ہے کہ کثرت ذکر سے حق تعالی کے ساتھ ایک نسبت راسخہ پیدا ہو جاتی ہے جس کا لازمی اثر سہولت طاعت اور دوام ذکر ہے ـ یہ باتیں میری کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہیں ، لیکن زبانی گفتگو سے جیسی سمجھ میں آتی ہیں ویسی محض مطالعہ سے سمجھ میں نہیں آ سکتیں ، انہی مصلحتوں سے سفر مناسب ہوتا ہے ـ خط وکتابت ان باتوں کے لئے ہرگز کافی نہیں ـ آپ یہاں سے واپس ہو کر خود مشاہدہ کریں گے کہ یہ سفر کرنا آپ کے لئے کس قدر نافع ہوا ـ اگر سفر نہ کرتے تو یہ بات پیدا نہ ہوتی ـ اب اس سب گفتگو کے بعد مجھ سے جو خدمت لی جاوے میں حاضر ہوں ـ ان صاحب نے بیعت کی درخواست کی ـ ہنس کر فرمایا کہ خیر یہ کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ـ اصل چیز تو اتباع اور محبت ہے ـ باقی ہاتھ دینا محض طالب کی تسلی کے لئے ہوتا ہے کہ اس کو اطمینان ہو جاوے کہ ہاں فلاں شخص کے ساتھ ایک خصوصیت ہو گئی ـ ورنہ نفع میں اس کا کچھ بھی دخل نہیں ـ میں آپ کو ہقین دلاتا ہوں کہ نفع میں ذرا برابر بھی کمی نہ ہوگی ، بلکہ بیعت کرنے سے میرے اوپر ایک بوجھ ہو جاتا ہے ـ میں تو یہ چاہا کرتا ہوں کہ مجھ سے بیعت تو نہ ہوں لیکن مجھ سے