ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
مطلوب شرعی میں خلل واقع کر دے وحی میں مثل نوم مغلوبیت ہوتی تھی لیکن کسی حالت شرعیہ سے تو خروج نہیں ہوتا تھا باقی حالت محمودہ کا مطلق غلبہ کیسے منفی ہو سکتا ہے جبکہ نوم کا بھی غلبہ انبیاء و اولیاء پر ہوتا ہے ـ غرض کاملین پر بھی احیانا کسی حال محمودہ کا غلبہ ہوتا ہے مثلا بکا کا غلبہ کاملین کو بھی ہونا ہے گواوروں سے کم ہوتا ہے وجد کسی نئی چیز کا ایک خاص اثر ہوتا ہے کامل کو بھی نئی چیز کا اثر پرانی سے زیادہ ہوتا ہے مثلا کامل نئی شادی کرے تو شروع میں کیا اس پر خاص اثر نہ ہو گا ہر نئی چیز کا اثر ہوتا ہے چنانچہ شعر سن کر بہت اثر ہوتا ہے دوبارہ سننے پر وہ اثر نہیں ہو گا یہ سب امور طبیعہ میں سے ہیں سیدھی بات تو یہ ہے باقی تاویل ہے ـ مکرر استفسار پر فرمایا کہ سورہ نساء سن کر حضور اکرمِؐ روئے تھے یہ کیا غلبہ نہیں ہے پھر فرمایا کہ یہ تو تمہارے سوالات کے جوابات تھے باقی انبیاء کے احوال کی بابت سوالات نہیں کرنے چاہئیں اولیاء کے احوال کی بابت کرنا چاہئیں انبیاء کے ذوق سے ہم لوگ بالکل عاری ہیں اس لئے جو کچھ ہم قیاس کریں گے وہ قیاسا علی احوالنا ہو گا ـ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ انبیاء کے احوال گفتگو نہیں کرنا چاہیے بعض مصنفین نے اس کی ذرا پرواہ نہیں کی خواہ اور انبیاء کی تنقیص ہی ہو جاوے حالانکہ ادب کے بھی خلاف ہے مصنفین نے جہاں کمالات انبیاء کا موازنہ کیا ہے وہاں بڑی جرات سے کام لیا ہے ـ حضرت موسی علیہ السلام کا قول ہے کلا ان معی ربی سیھدین اور حضورؐ کا قول ہے لاتحزن ان اللہ معنا بعض مفسرین نے کہا ہے کہ موسی علیہ السلام نے معی پہلے کہا بعد کو ربی اور حضورؐ نے اللہ پیشتر کہا پھر معنا اور موسی علیہ السلام نے معی کہا حضور نے معنا فرمایا تو حضور کا قول قول موسوی سے بڑھا ہوا ہے کیا نعوذباللہ اس مفسر کو جتنا ادب ہے موسی علیہ السلام نہیں جانتے تھے کتنی سخت بے ادبی ہے بات یہ ہے وہاں ایسے ہی مقتضات تھے یہاں ایسے یہ تو مجملا سمجھ لیجئے باقی ظنا ان کی کچھ تفصیل بھی ہو سکتی ہے ظنا سمجھئے موسی علیہ السلام نے ایسوں کو خطاب کیا تھا جن میں اکثر گستاخ اور غیر متوکل علی اللہ تھے اس لئے معی افراد اور حصر کے ساتھ لائے اور حضور کا خطاب حضرت ابو بکر صدیق کو ہے اس لئے معنا لائے مصنفین میں یہ