ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
یہ سوچا کہ اب کی مرتبہ فلاں پایہ دونوں اٹھیں چنانچہ دونوں اٹھ گئے پھر تیسرے پایہ کا خیال کیا تو وہ بھی اٹھنے لگا لیکن ان دونوں میں سے جو پیشتر کے اٹھے ہوئے تھے ایک پایہ نیچے گر گیا تینوں ایک ساتھ نہ اٹھ سکے اس کے لئے زیادہ قوت کی ضرورت تھی پھر ہم نے صرف ایک انگلی رکھ کر اسی طرح پائے اٹھائے پھر اس میز کے اوپر دوسری میز رکھی اور اس پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچ کر کھڑے ہو گئے کہ اوپر والی میز کا فلاں پایہ اور نیچے والی میز کا فلاں پایہ اٹھ جاوے چنانچہ اسی طرح اٹھ گئے ـ غرض جس طرح چاہا اسی طرح پائے اٹھ اٹھ گئے اب ہمیں پوری طرح اطمینان ہو گیا تین پائے ایک ساتھ نہ اٹھ سکے کیونکہ خیال میں اتنی قوت نہ تھی لیکن مشق بڑھانے سے یہ بھی ہو سکتا ہے پھر ہم نے اسی کے قاعدہ کے موافق میز کو خطاب کیا کہ اگر تجھ میں کوئی روح آتی ہے تو ایک بار فلاں پایہ اٹھے اور اگر نہیں آتی تو دو بار اٹھے چنانچہ دو بار اٹھا تو بطور حجتہ الزامیہ علی المدعی کے خود اسی کے قاعدہ سے روح کے آنے کا بطلان بھی ثابت ہو گیا ـ حقیقت یہی ہے کہ سب تصرفات خیال کے ہیں اور ہاتھ رگڑنے کی یہ مصلحت ہے کہ رگڑ سے قوت برقیہ منتعش ہو جاتی ہے ہاتھ یا انگلی اس لئے رکھی جاتی ہے کہ اس سے خیال کو بہت مدد ملتی ہے اور واسطہ کے ذریعہ سے خیال آسانی کے ساتھ کام کر سکتا ہے اگر زیادہ مشق بڑھائی جاوے تو پھر اس کی بھی ضرورت نہیں رہتی محض خیال کرنے سے پایہ اٹھ سکتا ہے پھر تو یہ ہوا کہ جو ہاتھ رکھ کر بیٹھا اسی کے ہاتھ سے پایہ اٹھ گیا ساری حقیقت کھل گئی کہ لو صاحب یہ ہے ؎ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا ان سارے واقعات کے بعد مدرسہ کا جلسہ تھا معمول سے زیادہ آدمی آ نے والے تھے ہم نے کہا کہ لاؤ اس عمل سے یہ معلوم کریں کہ آج مسجد میں کتنی صفیں ہوں گی چنانچہ یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ جتنی صفیں ہوں اتنی ہی بار پایہ اٹھ جاوے پایہ گیارہ مرتبہ اٹھا اور بارہویں مرتبہ بھی کچھ اٹھا لیکن ذر است سا اٹھا میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے بارہویں مرتبہ تھوڑا اٹھ کر رہ گیا ـ