پست رکھا جائے، آواز بلند کرنے والوں اور شان رسالت کا لحاظ نہ کرنے والوں کی ناسمجھی کا اعلان ہورہا ہے،ارشاد ہوتاہے:
{إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ}(۱)
’’یقینا جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر سمجھتے نہیں ۔‘‘
اس آیت کے شان نزول میں واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بنوتمیم کے کچھ لوگ ایک ضرورت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ وقت آپ کے قیلولے کا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حجرہ شریفہ میں آرام فرمارہے تھے، وہ لوگ جاہلی رواج کے مطابق آتے ہی باہر سے آپ کوپکارنے لگے، زمانہ جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ جب شعراء وبلغاء کا کوئی وفد کسی بادشاہ یاامیر کے پاس جاتا تووہ قریب پہونچ کرباہر ہی سے آواز دیتا کہ ہم اشراف عرب ہیں ، اصحاب فصاحت وبلاغت ہیں ، ہم تعریف کردیں توباعث شرف ہے اوراگرمذمت کردیں توباعث ذلت ہے۔(۲)
بنوتمیم کے اس وفد نے بھی یہی طریقہ اختیارکیا، ان میں اکثریت توان لوگو ں کی تھی جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، لیکن ان میں چند مسلمان بھی تھے، چونکہ یہ طریقہ شان رسالت کے منافی تھا، اس لیے اس پر اللہ کی طرف سے سرزنش کی گئی، اورقیامت تک کے لیے یہ پیغام دے دیاگیا کہ شان رسالت میں ادنیٰ بے ادبی بلکہ کوئی بھی ایسا عمل جس میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہو رب العالمین کو سخت ناپسند ہے، ادنی بے ادبی بھی گستاخی کا پیش خیمہ ہے اورشان رسالت میں گستاخی کفر صریح ہے جوکہ بڑے سے بڑے اعمال کو بے کار کردینے کے لیے کافی ہے اسی لیے اوپر ’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ‘‘ کہا جاچکا ہے، (کہیں تمہارے سب کام بیکار چلے جائیں )۔
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۴ (۲) صحیح بخاری، کتاب التفسیر/۴۸۴۵، ترمذی/۳۲۶۷