کل مخلوقات میں عظمت ومحبت کا سب سے بڑا مظہر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہوتویہ تقویٰ کی سب سے بڑی نشانی ہے، لیکن جس طرح تقویٰ دل کا فعل ہے اسی طرح یہ عظمت بھی دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہو،اس کا یقینی اورلازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ایمان والا قدم قدم پر چونکے گا، کوئی کام بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان عالی کے خلاف نہ ہو، ضمیر کا احساس جاگ جائے،طریقۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اختیار کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت ومحبت جتنی بڑھتی جاتی ہے تقویٰ کا معیار اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے، لیکن یہ دھیان ہٹنے نہ پائے کہ یہ عظمت اسی لیے ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اللہ کے محبوب ترین بندہ ہیں ، عبدیت کاملہ آپ ہی کوحاصل ہے اوریہی مقام معراج ہے: {سُبْحٰنَ الَّذِیٓ أَسْرَی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلیٰ الْمَسْجِدِ الأَقْصیٰ}(۱) ’’وہ ذات پاک ہے جوراتوں رات لے گئی اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف۔‘‘
عظمت وتقدیس میں اگرحدود سے تجاوز ہوگیا اورعبدکومعبود والہ کا درجہ دے دیاگیا، تویہ درحقیقت شان رسالت میں توہین کے مرادف ہے، کسی کی تعریف اگرحد سے بڑھادی جائے توہ تعریف نہیں رہ جاتی بلکہ تنقیص بن جاتی ہے۔
سورۃ الحجرات کی اس تیسری آیت میں ادب وتعظیم کی جومثال پیش کی گئی ہے وہ بہت عام فہم مثال ہے، اس کے پیش کرنے کا اصل مقصد آپ کی عظمت کی طرف امت کومتوجہ کرنا ہے، یہ عظمت اطاعت کا زینہ ہے اوراطاعت تقویٰ کی نشانی ہے۔
جولوگ بھی اپنے دلوں کورسالت کی عظمت سے منور کرلیتے ہیں اورتقویٰ ان کا مزاج بن جاتا ہے ان کے لیے ارشاد ہوتا ہے:
------------------------------
(۱) سورۂ بنی اسرائیل/۱