ہے اورنہ ہوسکے گی، امامت انبیاء کا شرف آپ کوحاصل ہوا، مقام محمود آپ کا حق ہے اورقیامت میں شفاعت عظمیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت کومخفی نہیں رکھا بلکہ اس کا اعلان فرمادیا{وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ}(۱) ’’ہم نے آپ کے ذکرکوبلند کیا۔‘‘ آپ کی محبت کو دلوں میں اتاردیاگیا، اس کو ایمان کا حصہ قراردیاگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین۔‘‘(۲) ’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جائوں ۔‘‘
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اللہ کے رسول! ہرایک کی محبت مغلوب ہوچکی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اپنی ذات سے تعلق زیادہ ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! ابھی نہیں ، حضرت عمرؓ نے قدرے توقف کے بعدفرمایا کہ اب تواپنی ذات سے زیادہ آپ کی محبت معلوم ہوتی ہے،فرمایا: ہاں اب۔ (ایمان مکمل ہوا)۔ (۳)
حضرت خبیبؓ کوجب پھانسی پر لٹکایا گیا توکسی مشرک نے کہا کہ ہاں اب توتم یہ سوچتے ہوگے کہ (معاذ اللہ) محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) تمہاری جگہ ہوتے اورتم چھوٹ جاتے؟ حضرت خبیبؓ نے فرمایا کہ ’’مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں کانٹا بھی چبھے اورمیں چھوٹ جائوں ۔‘‘ حضرات صحابہ کی محبت وعقیدت کا حال یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے اس کی گواہی دی، صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کرکے مشرکین مکہ کے پاس گیا
------------------------------(۱) سورۂ انشراح /۴ (۲) صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان/۱۵ ، وصحیح مسلم/۴۴ (۳) بیہقی، شعب الایمان، ۱۴/۱۳۷۱