کر لوگوں کے سامنے آتی ہے وہ نہایت ناقص تصویر ہے، اس وقت ایک طرف مسلمانوں کی بڑی ذمہ داری ہے، مسلمانوں نے اگر صحیح نظام نہ پیش کیا، اسلام کی صحیح ترجمانی نہ کی اور خود بھی وقت کے دھارے میں بہتے رہے تو دنیا کی تباہی میں وہ بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں گے، اور دوسری طرف دنیا کے ہوش رکھنے والوں اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے، وہ دنیا کے مختلف نظاموں کا تجربہ کرچکے، یہودیوں نے تو پہلے ہی دم توڑ دیا، اور وہ بجائے انسانیت کی رکھوالی کے اس کے قاتل بن گئے، عیسائیت بھی دنیا کو کوئی صاف اور بے خطر راستہ نہ دے سکی، اس کی مذہبی کتابوں میں وہ ہدایت موجود بھی نہیں ہیں بقول کسی عیسائی مفکر کے: ’’حضرت عیسیٰ اگر یکجا کی جائیں تو اخبار کے ڈیڑھ کالم سے نہیں بڑھ سکیں گی۔‘‘ اس صورت حال میں ڈوبتی دنیا کو اگر سہارا مل سکتا ہے تو صرف اسلام سے! دنیا اس کا تجربہ کرچکی ہے، حضرات خلفائے راشدین کے دور میں جب پورے اسلام پر عمل تھا، دنیا نے امن واطمینان اور راحت و سکون کی صدیوں کے بعد سانس لی تھی، اور پھر عرصہ تک اس کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں ، ایک عورت بے خوف و خطر ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی، کسی کے لیے چوں چرا کی گنجائش نہیں تھی، پھر جب مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑا تو حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔
آج دنیا کو دوبارہ پلٹنے کی ضرورت ہے، جو تجربہ ہوچکا اگر وہ دہرا دیا جائے تو شاید حالات پھر بدل جائیں ، لیکن اس کے لیے آسمانی تعلیمات کا سہارا لینے کی ضرورت ہے، قرآن مجید جس کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا، اس کی روشنی میں آنے کی ضرورت ہے۔
k