دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
شریعت کو نافذ کرنا ہمارااصل مقصد ہے، رہ گیا خروج وگشت وغیرہ تو یہ توہمارے کام کی ابتدا اور الف، با، تا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنا ہے جن کی کچھ تفصیل آگے آرہی ہے، خدانخواستہ انہی ابتدائی کاموں یعنی خروج وغیرہ ہی کو اصل مقصد سمجھ لیااوروسائل کو مقاصد کا درجہ دیدیا تو یہ بڑے خطرے کی بات ہوگی کیوں کہ اس کا نتیجہ دین کے دوسرے شعبوں کی اہمیت نہ ہونا اور ان کی بے وقعتی ہوناہے، اور یہ بڑے فتنہ کی بات ہوگی، چنانچہ ان دونوں باتوں کو حضرت مولانا الیاسؒ نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ہے: ’’ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں کو جمیع ماجاء بہ النبیﷺ سکھانا (یعنی پورے دین کو سکھانا اور زندہ کرنا) یہ تو ہے ہمارا اصل مقصد، رہی یہ قافلوں کی چلت پھرت اور تبلیغی گشت سو یہ اس مقصد کے لئے ابتدائی ذریعہ ہے، اور کلمہ ونماز کی تلقین وتعلیم گویا ہمارے پورے نصاب کی ’’الف، با، تا ہے‘‘ (ملفوظات حضرت مولانامحمدالیاسؒص۳۲ ملفوظ نمبر۲۴) نیز ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اور اگر کام (پورے طور پر) شروع نہ ہوا بلکہ اسی طرح رہا جس طرح پر اب تک ہے اورلوگوں نے اس کو منجملہ تحریکات کے ایک تحریک سمجھ لیا اور کام کرنے والے اس راہ میں بچل گئے تو جو فتنے صدیوں میں آتے وہ مہینوں میں آجائیں گے۔ (ملفوظات حضرت مولانامحمدالیاس صاحبؒص۴۳ ملفوظ نمبر۳۸) اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرتؒ کے فرمان کے مطابق اس کام کے ذریعہ پورے دین کو اور دین کے تمام شعبوں کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس کام کے ذریعہ پورادین زندہ ہوسکے اور تمام فتنوں سے محفوظ بھی رہے اور ایسا نہ ہونے سے یہ کام کہیں خود فتنہ کا شکار نہ ہوجائے۔ اس کی کچھ مثالیں یعنی دین کے مختلف شعبوں میں بھی کام کرنے سے متعلق چند باتوں کی طرف خود حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ نے رہنمائی اور نشاندہی فرمائی ہے بطور