ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
سخت کہتے ہیں ـ اگر کوئی میرے پاس رہ کر ان حرکتوں کو دیکھے تو امید ہے کہ وہ مجھ سے بھی زیادہ سخت ہو جاوے ـ جب حضرت نے خود انکار فرما دیا تو کہنے لگا کہ طالب علموں کو تقسیم کرا دو ـ حضرت نے ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا کہ تم نے طالب علموں کی اچھی قدر کی ـ گویا وہ ایسی گری پڑی چیز کے مستحق ہیں ، جو چیز یہاں سے مردود ہو گئی وہ ان کے لائق ہو گئی - سو ہمارے یہاں کے طالب علم گو حاجب مند سہی لیکن بحمداللہ وہ ایسے نہیں کہ ہر گری پڑی چیز پر رال ٹپکاتے پھریں ـ کچھ دیر بعد اس شخص نے پھر پوچھا کہ جی تو کیا کہو ہو ـ غرض برابر ایسی ہی حرکتیں کرتا رہا جو پاس بیٹھنے والوں کو بھی ناگوار ہوتی تھیں ـ آخر میں اس نے ایک شخص سے اشارہ کیا کہ تم ہی کہہ دو ، یہ حرکت مزید براں تھیں ـ آؒخر میں معلوم ہوا کہ یہ گڑ عشر زکوۃ کا تھا ، یہ سب سے بڑھ کر ہوئی ــ اس پر حضرت نے فرمایا کہ دیکھئے لوگ مجھ کو خواہ مخواہ وہمی کہتے ہیں ـ گو گذشتہ واقعات نہ یاد رہیں لیکن ان کا اثر تو قلب پر رہتا ہے ـ اب دیکھئے اگر میں بلا پوچھے گھچے لے لیتا اور بعد کو معلوم ہوتا تو طبیعت کو کس قدر ناگوار ہوتا اور اس کی زکوۃ بھی ادا نہ ہوتی ـ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قلب میں پیشتر ہی نفرت پیدا ہو گئی تھی ، ورنہ انہوں نے اپنی طرف سے کیا کسر رکھی تھی ـ پھر یہ شعر فرمایا ؎ قتل ایں خستہ بہ شمشیر تو تقدیر نبود ورنہ ہیچ از دم شمشیر تو تقصیر نبود بھلا ایسی صورت میں سوچنے سے کوئی کہاں تک احتمالات نکال سکتا ہے لیکن وہ تو خود حق تعالی دستگیری فرماتے ہیں ـ قلب میں بحمداللہ بس ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی کہہ گیا ہو ـ اس شخص کی نا سمجھی کی باتوں پر ارشاد فرمایا کہ جو دین کا پابند نہیں ہوتا اس کی دنیا کی سمجھ خراب ہو جاتی ہے اور جو شخص دیندار ہوتا ہے گو تجربہ دنیا کا نہ ہو لیکن دنیاوی امور میں بھی اس کی سمجھ سلیم ہو جاتی ہے ـ حلال روزی میں بھی یہی اثر ہے ـ برخلاف اس کے حرام روزی سے فہم مسخ ہو جاتا ہے ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ بوجہ دیہاتی ہونے اور کم سمجھ ہونے کے اس سے یہ حرکتیں سرزد ہوئیں ـ فرمایا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوا کہ ان کی خطا نہیں ـ لیکن اگر