ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
دوسرے یہ کہ باوجود اس کے کہ مساوی بالکل تھانہ بھون سے ملا ہوا ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو اس قدر اجنبیت دین سے ہے جیسے کوئی دیہات پانچ سو کوس پر اہل علم سے ہو ـ کوئی بندہ خدا کا کبھی کوئی دین کی بات پوچھنے نہیں آتا ـ ہاں اگر آ تے ہیں تو کوئی دودھ دینے آتا ہے ، کوئی گڑ چاول لاتا ہے اور میں لیتا نہیں ، کیونکہ اس شخص سے کوئی چیز لینے میں نہایت ذلت معلوم ہوتی ہے جس کو خود کوئی نفع نہ پہنچا سکے ـ ہان جو دینی نفع حاصل کرتا رہے وہ اگر محبت سے کبھی کچھ دے تو کس کو انکار ہے ، کیونکہ آخر میری گزر ہی اسی پر ہے ـ لیکن یہ شرط ہے کہ دینے میں بجز محبت کے اور کوئی نیت نہ ہو ـ یہاں تک کہ ثواب کی بھی نیت نہ ہونی چاہئے ـ گو جب حق تعالی کے تعلق کی وجہ سے دیا تو ثواب اس کو مل ہی گیا ـ دیکھئے اگر کوئی اپنے بات یا لڑکے کو کچھ دے تو نیت ثواب کی نہیں ہوتی لیکن ثواب ملتا ہے ـ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس کو ثواب ملتا ہے ، حالانکہ بیوی کو کوئی ثواب کی نیت سے نہیں دیتا بلکہ اگر اس کو ثواب کی نیت کی خبر ہو جاوے تو اس کو ناگوار ہو اور وہ انکار کر دے کہ کیا میں خیرات خوری ہوں ـ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کی نیت بھی ہم لوگوں کے دینے میں وہی ہوتی ہے جو پیر شہیدوں کی قبروں پر چڑھاوا چڑھانے میں ہوتی ہے کہ اگر ان ملانوں کا حصہ اس میں ہو جاوے گا تو برکت ہو جاوے گی ـ کھیت میں خوب ایکھ پیدا ہو گی ـ غرض دینے میں نیت بھی خراب ہوتی ہے ـ پھر حضرت نے اس شخص سے فرمایا کہ بھائی محبت سے اگر کوئی چیز لائے تھے تو ڈھنگ سے لائے ہوتے ـ اب تم دو برس تک برابر ملتے جلتے رہو اور دین کی باتیں پوچھتے پاچھتے رہو اور لاؤ کچھ نہیں ، گڑ دینے کے لئے نہ آؤ ـ بلکہ گڑ لینے کے لئے آؤ ، یعنی دین کی باتیں سیکھنے ـ جب تعلق بڑھ جائے تب کوئی چیز لانے کا بھی مضائقہ نہیں ، لیکن پھر بھی پہلے پوچھ جاؤ کہ فلاں چیز لانا چاہتا ہوں کیونکہ اگر کسی وجہ سے نہ لینا ہوا تو قبل لانے ہی کو انکار کر دینے سے اتنا رنج نہیں ہوتا جتنا لائی ہوئی چیز کے انکار کر دینے سے ہوتا ہے ـ اس کا ہمیشہ خیال رکھنا - وہ شخص ایسی واضح گفتگو کے بعد پھر بھی اصرار کرنے لگا - اس پر ترش رو ہو کر فرمایا کہ بھلا دیکھئے کہاں تک طبیعت میں تغیر نہ آ وے ، آخر میں بھی بشر ہوں ـ لوگ مجھ کو