ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
یہاں آتا ہے اس کی اصلاح کرنا میرے ذمہ لازمی ہے ـ ورنہ ہر قسم کے لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں میں کسی سے کچھ نہیں کہتا ـ ایک بار فرمایا کہ ایک شخص اپنے قلب کو میرے سپرد کرتا ہے کہ اس کی اصلاح کیجئے ـ اب اگر میں کوئی بات اپنے نزدیک قابل اصلاح اس میں دیکھوں لیکن مروت میں آ کر کہ دل برا ہو گا اس کو مطلع نہ کروں تو یہ خیانت ہے ـ طالبین پر حضرت کا سختی فرمانا اور غیر طالبین کے ساتھ ظاہری اخلاق برتنا بعینہ اس شعر کا مصداق ہے ؎ نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت : سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی احقر کو ایسے موقعوں پر بے اختار یہی شعر یاد آ جاتا ہے ـ پھر یہ بھی ہے کہ سختی کے بعد اس درجہ شفقت سے اس کا تدارک فرماتے ہیں کہ ذرہ برابر بھی اس سختی کا اثر قلب میں باقی نہیں رہتا ـ واللہ حضرت کی اس سختی پر اوروں کی لاکھ شفقتیں قربان ؎ ان کو آتا ہے پیار پر غصہ : مجھ کو غصہ پہ پیار آتا ہے ناخوش تو خوش بود بر جان من : دل فدائے یار دل رجحان من مجھ میں بد گمانی کا مادہ بہت ہے ، لیکن میں بقسم کہتا ہوں کہ سچی اور قلبی شفقت اور دل سوزی اور نیز رقیق القلبی حضرت میں اس درجہ ہے کہ شاید کسی میں ہو ـ مجھے تو واللہ یہاں رہ کر اس بارہ میں حق الیقین اور شرح صدر ہو چکا ہے ـ محض حسن عقیدت کی بناء پر یہ عرض نہیں کیا گیا ـ اس اظہار کا مطلق قصد بھی نہ تھا ـ لیکن بے اختیار اس موقع پر معرض تحریر میں آ گیا ـ تنبیہ - یہ سب دور قدیم کے طرز عمل کے متعلق گفتگو تھی - باقی یکم رمضان 34ھ سے حضرت کا دور جدید شروع ہو گیا ہے جس میں ظاہری سختی کا برتاؤ بھی بالکلیہ متروک فرما دیا گیا ہے ـ اب سہولت کے ساتھ غلطی پر متنبہ فرما دیتے ہیں ـ تسلط اور نگرانی بالکل موقوف کر دی ہے ـ کیونکہ یہ طرز عوام کے گمان میں باعث تکدر و تکدیر ہوتا تھا اور ادھر اس طرز کے متعلق حضرت کی تحریرات و تقریرات نہایت کافی مقدار میں مدون بھی ہو چکی ہیں ، اس لئے بھی طرز سیاست کی ضرورت نہ رہی تھی ـ لہذا محض طرز موعظت کافی سمجھا گیا ـ دور قدیم و دور جدید کی مفصل تشریح غرہ رمضان المبارک 34ھ کے ملفوظا کے شروع میں جو تحریر حضرت کی