ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
انہوں نے یہ حرکت کی ـ بھلا مجھ کو لکھنے کی کیا ضرورت تھی ، جن سے معاملہ طے ہوا تھا انہیں کو لکھ دینا کافی تھا ـ انہوں نے یہ نا معقول حرکت کی کہ ان کو بھی لکھا اور مجھے بھی دھر گھسیٹا ـ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ چونکہ آپ کی رائے تھی ، اس لئے مجبور ! میں معاملہ کرنے کو تیار ہو گیا ہوں ، لوگ خواہ مخواہ مجھے بھی اپنے دنیاوی امور میں آلودہ کرنا چاہتے ہیں ـ مجھے ان قصوں سے کیا واسطہ ، مجھ سے تو بس یہ پوچھا جائے کہ اس بات میں شریعت کا کیا حکم ہے ـ دنیاوی امور میں تو میں کسی پر ذرہ برابر بھی زور یا دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا ـ ہاں دین کی باتوں میں حکم دینا کیا مارنے پیٹنے کو بھی تیار رہتا ہوں ، مگر خاص اپنے تعلق والوں کو ـ جب میں نے اپنی ہی دنیا کے سارے قصوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے تو پھر دوسروں کی مراد دنیا سے میں کیوں تعلق رکھوں ـ غیر لوگ تو پھر غیر ہیں ، بھائی سے بڑھ کر کوئی نہیں ـ میں اپنے بھائی کے دنیاوی امور میں تو کسی قسم کا دخل یا رائے دیتا ہی نہیں ، پھر دوسرے تو بے چارے کیا چیز ہیں ـ بھائی اکبر علی کی اولاد کے رشتہ کی بابت میرے پاس خطوط آ ئے ، کیونکہ میں گھر میں بڑا ہوں ، لیکن میں نے صاف لکھ دیا کہ ؎ ماہیچ نداریم و غم ہیچ نداریم دستار نداریم و غم پیچ نداریم جب بار بار یہی ہیچ ہیچ لکھا ہوا گیا تو پھر خط آنے بند ہو گئے - بھائی اکبر علی خود ایک بار رات کو دو بجے آ ئے اور کنڈی کھٹکھٹائی ـ میں نے کہا خیریت ہے ، کیسے آئے ؟ وہ اپنے ایک رشتہ کی بابت مشورہ لینے آئے تھے - میں نے کہہ دیا کہ میں ان معاملات میں کچھ نہیں جانتا ، مجھے ان قصوں سے معاف رکھو ـ انہوں نے کہا کہ میری کچھ اعانت تو کرنی چاہئے ـ میں نے کہا کہ میری اعانت ہی چاہتے ہو تو میں حق تعالی سے دعا کروں گا کہ جو بہتری ہو وہی ہو جائے اور واقعی اس سے بڑھ کر کوئی اعانت نہیں ہو سکتی ـ باقی مشورہ و غیرہ میں کچھ نہیں دے سکتا ـ پھر فرمایا کہ جب بھائیوں کے ساتھ میرا یہ معاملہ ہے تو دوسرے تو پھر دوسرے ہی ہیں ـ اگر میں دنیاوی امور میں خود مبتلا بھی ہوتا مثلا زمینداری یا تجارت کے قصوں میں تب بھی جن کو مجھ سے دینی تعلق ہے ان کے اپنے دنیاوی امور میں پھر بھی ہر گز مجھ سے مشورہ با رائے کچھ نہ لینا چاہئے تھا ، گو میں خود کتنا ہی آلودہ ہوتا ـ اور جب یہ بھی نہیں تب تو ایسا کرنا پوری حماقت ہے ـ