ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
انشاء اللہ اب میں انہیں کبھی کوئی رائے نہ دوں گا ـ جو بات میرے اختیار کی ہے وہی میں کر سکتا ہوں اور اگر پھر بھی وہ میری شرکت رائے کو غلط طور پر ظاہر کرتے پھریں تو اس کی روک تھام میرے اختیار سے خارج ہے ـ پھر فرمایا کہ یہ تو ان لوگوں کا حال ہے جن کو رات دن اسی کا سبق پڑھایا جاتا ہے ـ اگر کوئی اور ہوتا تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ بھائی نا واقف تھا ـ لوگوں کی عقلیں بھی کیسی بھدی ہو گئی ہیں کہ رات دن انہیں باتوں کا سبق ہے لیکن پھر بھی دماغ میں نہیں بیٹھیں ـ رسوم ایسی غالب ہو گئی ہیں کہ فہم مسخ ہو گئے ـ یہ تو میں نہیں کہتا کہ باوجود اس خیال کے کہ مجھ کو تکلیف ہو گی ، پھر بھی انہوں نے لکھ دیا ہو ـ لیکن انہوں نے غور ہی نہیں کیا ـ اگر غور کرتے تو ضرور یہ خیال میں آ جاتا اور ایسا ہر گز نہ کرتے ـ شکایت تو اسی بات کی ہے کہ انہوں نے غور کیوں نہیں کیا - مجھے تو ایسے امور سے علیحدگی کا یہاں تک اہتمام ہے کہ میں نے صاف طور سے منشی صاحب سے کہہ دیا ہے کہ اپنے کتب کے اشتہار میرے مہمانوں کو ہرگز نہ دیئے جاویں ـ ہاں اگر وہ خود مطبع میں جاویں تو وہاں ان کو دے سکتے ہیں ـ یہاں پر دینے میں یہ احتمال ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میرا بھی کچھ تعلق ہے اور میرے تعلق کی وجہ سے خواہ مخواہ خریدار بنیں اور یہ مجھے ہرگز گوارا نہیں کہ میرا دباؤ کسی شخص پر مستحبات میں بھی پڑے ـ میں چاہتا ہوں کہ استحباب تک میں بھی کہ شخص بالکل آزاد رہے ـ میری وجہ سے کسی قسم کا بار کسی پر نہ پڑے ـ مجھ سے لوگ خطوط میں دریافت کرتے کہ " الامداد ،، نافع پرچہ ہے یا نہیں ؟ تو میں انہیں لکھ دیتا ہوں کہ نمونہ کا پرچہ منگا کر خود دیکھ لو ـ میرے اوپر کیوں بوجھ ڈالتے ہو ـ اگر کوئی یہ بھی لکھتا ہے کہ میرے نام پرچہ جاری کرا دو تو میں لکھ دیتا ہوں کہ صاحب مطبع کو خود لکھو ـ بات یہ ہے کہ مجھے لوگوں کے طبائع اور فہموں کا تجربہ بہت ہو چکا ہے ـ ان باتوں سے خواہ مخواہ یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ بھی شریک تجارت ہے ـ لوگوں کے فہموں کا یہ حال ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب تو کتابوں کی تجارت کرتے ہیں اور شکایتیں میرے پاس لکھی آتی ہیں کہ دیکھئے آپ کے یہاں گڑ بڑ ہے ـ ان باتوں سے میرے قلب کو نہایت کلفت ہوتی ہے ـ پھر فرمایا کہ وہ حاجی صاحب بھی عجیب عقلمند ہیں کہ