ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
کھڑے تھے یہ دیکھ کر فورا انہیں گود میں اٹھا کر دوسری طرف لا کھڑا کر دیا کیونکہ مولانا بہت ہی چھوٹے سے اور منحنی سے تھے ـ ایک مرتبہ مولانا ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے مولانا کی آنکھیں چونکہ ہمیشہ مریض رہتی تھیں اس لئے مولانا چادرہ آنکھوں کے سامنے ڈال کر چلا کرتے تھے مسجد میں آ کر ایک لوٹا اٹھانے لگے جو ایک طالب علم انہیں کے واسطے جھکا ہوا بھر رہا تھا اس نے دیکھا تو ہے نہیں سمجھا اور کوئ ہے اس نے مولانا کی انگلی دبا کر جھرک کر کہا رکھ کہاں لے جاتا ہے مولانا نے وہیں رکھ دیا پھر اس نے دیکھا تو خود مولانا تھے نہایت شرمندہ ہوا اور معافی چاہنے لگا مولانا پر کچھ بھی اثر نہیں ـ ایک بار بعد نماز جمعہ کے مولانا اپنی جوتیاں خود ہاتھ میں لے کر چلے کیونکہ مولانا اس قدر متواضع تھے بھلا یہ کب گوارا تھا کہ کوئی دوسرا ان کی جوتیوں کو اٹھا کر رکھے ایک خادم صاحب نے بیچ فرش پر مولانا کے ہاتھ سے جوتیاں لینی چاہیں گرمیوں کے دن دوپہر کا وقت فرش تپ رہا تھا جس پر کھڑا ہونا مشکل تھا اب مولانا تو انکار کر رہے ہیں اور وہ صاحب اصرار کر رہے ہیں جب مولانا نے اپنی جوتیاں نہ چھوڑیں تو اس ظالم نے ایک ہاتھ سے تو مولانا کی کلائی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے جھٹکا دے کر جوتیاں چھوڑا لیں اور دوڑ کر سیدھی کر کے صف نعال پر لا کر رکھ دیں اور اپنے دل میں اپنی کامیابی پر بڑے خوش ہوئے مجھ کو بے حد ناگوار گزرا کہ ظالم تو نے اس ادب کا تو خیال کیا کہ جوتیاں اٹھا کر رکھوں اور اس بے ادبی کا خیال نہ کیا کہ تپتے ہوئے فرش پر اتنی دیر تک کھڑا کئے رکھا اور کلائی پکڑ کر جھٹکا دے کر جوتا چھڑا دیا ـ مجھے اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا لوگ خدمت کرنے کا طریقہ بھی نہیں جانتے ایک بار میں گنگوہ بہلی میں بیٹھا جا رہا تھا راستہ میں دیکھا کہ مولانا پیدل چلے جا رہے ہیں میں نے فورا اتر کر عرض کیا کہ حضرت بہلی حاضر ہے فرمایا کہ میں تو پیدل ہی جایا کرتا ہوں اس پر میں نے کچھ اصرار نہیں کیا اور میں بھی پیدل ساتھ ہو لیا اور لوگ میرے ساتھ تھے ان لوگوں نے اصرار کرنا چاہا لیکن میں روک دیا کہ آپ کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہیے پھر حاضرین سے حضرت نے فرمایا کہ بزرگوں سے کہیں اس طرح کام نکالتے ہیں کہیں اصرار اور مناظرہ سے کام چلتا ہے کیونکہ