ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
ہے کہ ترک دعاء عزیمت ہے اور دعاء کرنا رخصت ، فرمایا کہ یہ کسی غلبہ حال میں فرمایا ہے یا یہ ان کی رائے ہے ، کیونکہ وہ اس فن کے مجتہد تھے - باقی اکثر کا مذاق اور تحقیق یہی ہے کہ ترک دعاء سے دعاء ہی افضل ہے ـ کیونکہ دعاء میں افتقار الی اللہ ہے جو ترک دعا میں نہیں ہے ـ مستفسر صاحب نے عرض کیا کہ دعا کرنے میں تو حق تعالی کے اختیار اور مصلحت کے خلاف کوئی امر خاص اپنی رائے سے اپنے لئے تجویذ کرنا ہوتا ہے ـ یہ تو گویا اپنے اختیار کو حق تعالی کے اختیار پر ترجیح دینا ہوا ـ اور ترک دعا میں یہ بات نہیں ـ فرمایا کہ جی نہیں ـ عین دعاء کے وقت بھی یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ خاص بات میری مصلحت کے خلاف ہو اور حق تعالی اس کو قبول نہ فرمائیں تب بھی میں راضی ہوں ـ اور اگر دعاء قبول نہیں ہوتی تو اس کے قلب میں شکایت پیدا نہیں ہوتی ، کیونکہ محبت میں ناگوار باتیں بھی سب گوارا ہو جاتی ہیں ـ جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت پر یا لڑکے پر عاشق ہو جائے اور وہ اس کو مارے پیٹے تب بھی اس کو ناگوار نہیں ہوتا اور حق تعالی سے محبت ہونا فطری ہے ہر شخص کو ـ یہاں تک کہ کفار کو بھی محبت حق تعالی سے ہے ـ جیسا کہ مشاہدہ ہے ـ گو وہ محبت اجمالی اور ناتمام ہی سہی ـ تو جتنے فضائل ترک دعاء میں ہیں ان سب کا مجموعہ دعا میں مع شئی زائد حاصل ہے ـ علاوہ اس کے اختیار دعاء میں یہ کتنی بڑی بات ہے کہ حق تعالی کی رحمت و شفقت کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ کیا ٹھکانہ ہے رحمت کا کہ باوجود اس علم کے کہ فلاں حالت حق تعالی کے علم میں اس کی مصلحت کے خلاف ہے ، پھر بھی ہماری تسلی کے لئے اس کا مانگنا ہمارے لئے جائز فرما دیا ہے ـ اس تصور سے حق تعالی کے ساتھ محبت کا غلبہ ہو کر عجیب کیفیت ہوتی ہے اور بات یہ ہے کہ دعا کیوں نہ مانگیں ـ جب ہم روز یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دعا مانگتے ہی مل جاتا ہے ـ شاید دو تین مواقع بھی ایسے مشکل سے نکلیں گے کہ جن میں دعا قبول نہ ہوئی ہو ـ پھر مولانا عاشق الہی صاحب نے عرض کیا کہ بلا دعاء جو کچھ ہونا ہے وہ ہو جائے گا ـ فرمایا کہ یہ تو مسئلہ قدر میں آپ گفتگو کرنے لگے ـ اس کی بحث علیحدہ ہے ـ اگر یہی ہے تو پھر نماز روزہ کی بھی ضرورت نہ ہو گی ، کیونکہ دوزخ جو کچھ ملنی ہے مل جائے گی ـ اور میں نعوذباللہ حضرت شیخ کا معارضہ نہیں کرتا لیکن اپنا اپنا مذاق ہے ـ