فسوق اور جدال پر جو بندش لگائی ہے ، اس کی جیسے پہلے ضرورت تھی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے ، وسائل وذرائع تو ضرور بدل گئے ، ان میں وسعت وسہولت پیدا ہوگئی ہے ، مگر انسان ابھی وہی ہے اور انسانی طبائع بھی وہی ہیں بلکہ ان میں کچھ گراوٹ ہی آئی ہے ، اس لئے جیسے اوردینی مسائل ومعاملات میں یاددہانی کی ضرورت ہوتی ہے ، سفر حج کے سلسلے میں بھی تذکیر اور نصیحت کی ضرورت ہے۔
استحضارِ نیت:
سفر حج وعمرہ کے فضائل مختصراً آپ نے پڑھ لئے ، سفر کے آغاز سے اس کے ختم ہونے تک حاجی صاحب اس بات کو مستحضر رکھیں کہ ان کا یہ سفر محض اﷲ کی عبادت کے لئے ہے ، اور اس کے واسطے سے یہ سفر خود عبادت ہے ، اس راہ میں جو بھی تکلیف ہوگی ، مشکل پڑے گی ، ان سب کی اﷲ کے نزدیک بڑی قیمت ہوگی، اور جو کچھ تکلیف ہورہی ہے ، اﷲ کی راہ میں ہورہی ہے ، اور اﷲ کے لئے ہورہی ہے ، اور مزید یہ خیال رہے کہ اﷲکی جانب سے ہے ، تاکہ اجر وثواب میں اضافہ ہو، اس تصور سے تکلیف کا جھیل لینا آسان ہوگا، بلکہ تکلیف ، تکلیف معلوم ہی نہ ہوگی، حاجی کو جب نیت مستحضر نہیں ہوتی، تو وہ پریشان ہوتا ہے ، اور گھر جیسی راحت چاہتا ہے ، اور نہیں ملتی تو شکایتوں میں مبتلا ہوتا ہے ، اچھے خاصے سفر عبادت کو گناہ سے بدل لیتا ہے، مشقت اس شکایت اور غصہ سے تو ختم نہیں ہوگی ، البتہ ثواب ختم ہوجاتا ہے ، اور غیبت ، شکایت ، فضول تبصروں اور تنقیدوں کا گناہ سر پڑتا ہے ، اور سفر بجائے نفع کے خسارے کا سودا ہوجاتا ہے۔
اس استحضار کے نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے ،کہ حج میں آنے والے حضرات محض چند دنیاوی رسوم پورا کرنے کو حج کا خلاصہ سمجھتے ہیں ۔
حجر اسود کا بوسہ:
مثلاً بہت سے حاجیوں کی کوشش ہوتی ہے ، کہ خواہ کوئی صورت ہو ، حجر اسود کا بوسہ لینا ضروری ہے، اس بوسہ کے شوق میں بلکہ جنونِ شوق میں آدمی نہ اپنی پروا ہ کرتا ہے، نہ