۹؍ محرم الحرام،۱۷؍جنوری (پنجشنبہ):
صبح آنکھ کھلی ، وضو کرکے مسجد شریف میں حاضری ہوئی ، بحمد اﷲ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی ، امام صاحب قرآن بہت عمدہ پڑھ رہے تھے ، نماز کے بعد دیر تک بیٹھے رہے، جب اندازہ ہوا کہ اب صلوٰۃ وسلام کے لئے مواجہہ شریف کی جانب ہجوم کم ہوگیا، تو ہم پانچ رفقاء میں ، عادل، حاجی محمود عالم ، مولوی جمال احمد اور ایک صاحب اور ، صلوٰۃ وسلام کے لئے مواجہہ شریف کی طرف بڑھے ،بھیڑاب بھی تھی ، ہم لوگ خاموشی سے گئے اور صلوٰۃ وسلام پیش کرکے باہر نکل گئے ، گنبد خضراء نظر آیا ، تو دل امنڈنے لگا ، بڑی مشکلوں سے آنکھوں پر قابو پایا۔
حافظ مسعود صاحب کو اطلاع کی ،ا نھوں نے فرمایا کہ آج رات ڈاکٹر شمیم صاحب کے یہاں چلنا ہے ، مجھ سے پوچھا کہ کب آؤں ؟ میں نے یہ سوچ کر کہ تکان بہت ہے ، ذرا سوکر تازہ دم ہوجائیں ، کہا کہ عشاء کے بعد آئیے ، مگر ظہر کے وقت تک تکان رفع ہوگئی ، میں سوچنے لگا کہ اگر حافظ صاحب آجاتے تو بہت اچھا ہوتا ۔ انھوں نے ظہر کی نماز کے بعد فون کیا کہ میں آرہاہوں ، ان سے ملاقات ہوئی ، بے حد خوشی ہوئی ، سفر کی دشواریوں کے تمام اثرات کافور ہوگئے ، وہ ایک اچھے پاکستانی ہوٹل میں لے گئے ، اور کھانا کھلایا، فجزاہ اﷲ خیر الجزاء
عصرکی نماز اسی مسجد میں پڑھی جس میں وہ امامت کرتے ہیں نماز کے بعد شہداء احدث کی خدمت میں حاضری دی، شہداء کی قبروں کو ایک بہت وسیع احاطے میں حکومت نے گھیر کر بند کردیا ہے ، وہاں تک کوئی نہیں پہونچ سکتا، صرف ایک سمت میں دروازہ بنایا ہے، اس سے کچھ قبریں نظر آتی تھیں ، لیکن اس سال نیا انتظام دیکھا کہ احاطہ کی پوری چار دیواری میں جالیاں لگادی گئی ہیں ، اب ہر طرف سے قبروں کی زیارت ہوسکتی ہے ، قبلہ کی سمت میں دوقبریں ہیں ۔ ایک سیّد الشہداء ،عم رسول حضرت حمزہ ص کی ، اور دوسری میں دوبزرگ صحابی مدفون ہیں ، ایک سیّدنا حضرت مصعب بن عمیرص اور دوسرے حضرت عبد اﷲ بن جحشص، وہاں اطمینان سے فاتحہ پڑھی ، ان کے پیچھے کچھ فاصلے پر باقی شہداء مدفون