۱۱؍ محرم الحرام،۱۹؍جنوری (شنبہ):
شنبہ کی صبح مسجد قبا میں حاضری دینا مسنون ہے، رسول اﷲ ا ہفتہ کے روز مسجد قبا تشریف لے جایا کرتے تھے ، مجھ کو اور عادل سلّمہ کو حافظ صاحب اپنی گاڑی سے مولوی حفظ الرحمن صاحب کے گھر لے کر گئے ، وہاں ناشتہ کیا گیا ، پھر کھجوروں کے ایک باغ میں گئے ، وہاں سے اسی باغ کی عجوہ کھجورلی گئی ، عجوہ کے فضائل حدیث میں آئے ہیں ، اس سے مراد مدینہ کی عجوہ ہے ، بازار میں عجوہ ملتی ہے ، مگر وہ کہاں کی ہوتی ہے ، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے،اور باغ سے جو لی گئی ، وہ یقینا مدینہ منورہ ہی کی مبارک مٹی سے ہے ، اس سے فارغ ہوکر مسجد قبا میں حاضری دی ، چند رکعتیں پڑھیں ، اور لوٹ کر جبل احد کے دامن میں دوبارہ گئے ، وہاں شہداء احد کی زیارت کی ، پھر حافظ صاحب کے گھر تھوڑی دیر ٹھہر کر حرم میں آگئے ۔
عصر کی نماز کے بعد جنت البقیع میں حاضری دی گئی ، پرسوں ایک کتاب ’’بقیع الغرقد ‘‘ میں نے خریدی۔ اس میں جنت البقیع کا تعارف ہے ، ترکوں کی حکومت کے دور میں بقیع میں ممتاز حضرات صحابہ ، مثلاً امیر المومنین سیّدنا عثمان غنی ص ،بنات رسول ، اہل بیت اور امہات المومنین کے مزاروں پر قبے بنے ہوئے تھے ، سعودی حکومت نے نہ صرف قبوں کو ڈھاکر ختم کردیا ، بلکہ قبروں کی شناخت بھی مٹادی، صرف پتھر کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں لگارکھی ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں یہاں قبریں ہیں ، تاہم یاد رکھنے والوں نے بعض بعض قبروں کو اور ان کی جگہوں کو یاد رکھا ہے ، کتاب میں ان مشاہیر کی قبروں کی نشان دہی کی گئی ہے ، میں تھوڑی سی تفصیل یہاں درج کرتا ہوں ۔
(۱)بقیع کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے رسول اﷲ ا کی تین بنات طاہرات یعنی صاحبزادیوں کی قبور مطہرہ ہیں ۔
(۱) حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا
(۲) حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا
(۳) حضرت زینب رضی اﷲ عنہا