بسم اللہ الرحمان الرحیم
مکہ معظمہ
مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کا وقت معلم کے کارندوں نے صبح آٹھ بجے کا طے کیا تھا،لیکن بس نو بجے کے قریب آ ئی، سامان وغیرہ نیچے لانے اور بس میں رکھنے میں دس بج گئے،ساڑھے دس بجے بس روانہ ہوئی ،بس کی کھڑکی سے میں مدینہ کے بام و در کو دیکھ رہا تھا،تابِ ضبط انتہا پر تھی،بس کسی نے چھیڑا اور آنسووں کی جھڑی لگی،کبھی ضبط کا بندھن ٹوٹا تو لوگوں سے چہرہ چھپا کر دو تین قطرے بہابھی لئے،دل بے قابو ،آنکھ رواں ہونے کے لئے بے تاب ،ایسا کیوں نہ ہو پہلی زیارت تھی اور پہلی جدائیگی،وصل کے لمحات ایک ایک کر کے ذہن کے خانوں میں گردش کررہے تھے،اور دل و دماغ میں ہل چل مچا رہے تھے،راشد بھائی سے میں نے سر گوشی کے انداز میں کہا کہ مدینہ چھوٹنے کا احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے،انھوں نے جواب دیا بے شک مدینہ کی جدائیگی تکلیف دہ ہے لیکن منزل مکۃ المکرمہ ہے جہاں پہونچنے کی خوشی بھی ہے،ان کی یہ بات ان کے حال پر چاہے جس حد تک صادق ہو لیکن میری کیفیت اس سے دیگر تھی ،وہ اس سے پہلے دو تین مرتبہ آچکے تھے ،انھوں نے دونوں جگہ کی بہاریں دیکھی تھیں ،میرا یہ پہلا سفر تھا اور میں نے صرف مدینہ کے شب و روز دیکھے تھے ،ا س لئے میری گرویدگی اور میلان طبعاً مدینہ کی طرف زیادہ تھا،یہی وجہ ہے کہ مدینہ سے رخصت کا غم زیادہ تھا ،زیادہ کیا صرف غم ہی غم تھا ،مکہ کی حاضری کی خوشی دل کے کسی خانہ سے ابھرتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی،میں سوچ رہا تھا کہ چالیس دن کے سفر کو منتظمین نصفا نصف کیوں نہیں تقسیم کر دیتے،تا کہ بیس دن میں خوب اچھی طرح مدینہ کی بہاریں لوٹی جا سکیں ،مکۃ المکرمہ متبرک و مقدس سہی لیکن وہاں کہاں روـضہ اقدس کی حاضری اور درود و سلام کی جاں فزا اور بہار آفریں فضا ہو گی ،یہ ما حول تو صرف اور صرف مدینہ ہی میں مل سکتا ہے ،لیکن مکہ پہونچنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ میری سوچ کی خامی تھی،اگر ایک عبادت